اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
غیر معمولی طور سے ذہین اور شرارت پسند آدمی کو آفت کا" پرکالہ" کہتے ہیں ۔ آفت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ایک اور محاورہ آفت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں ۔ اب سے کچھ زمانہ پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اور دوسرا فارسی تھا۔ آفت کی چھٹی بھی اسی طرح کاترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اور پرداخت کا علم ہوتا ہے۔ خط آنے پر ہمارے قصبوں اور خاص طور پر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے لکھا ہے؟ کیا لکھا ہے؟ اور پھر یہ کہ اسے کون پڑھ کر سنائے؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تو اسے آفت کی چٹھی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ رو یہ اگر محفوظ ہیں تو ہمارے اِن محاورات میں جو معاشرتی مطالعے کی کنجیاں کہہ جا سکتے ہیں ۔افرا تفری یہ عربی لفظ ہے، اَفراط اور تفریط، یعنی بہت زیادہ اور بہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اور چاہے وہ معاملات ہوں ، مسائل ہوں ، مشغولیتیں ہوں یا مصروفیات ہوں ، تناسب اور توازن کے بغیر اُن کا حُسن اور اُن سے وابستہ بھلائی اور عظمت قائم نہیں رہتی اور ایک بے تکا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اُردو والوں نے اسی کو ایک نئے محاورے میں بدل دیا۔ اس کے تلفظ اور املا کو بھی نئی صورت دی اور اس کے معنی میں نئی جہت پیدا کی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ بھگدڑ چھینا جھپٹی اور بے ہنگم پن۔ یہی بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اور اُس کی قوت کو کمزوری اور خوبی کو خرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم کا رشتہ انفرادی عمل سے بھی قائم ہوتا ہے اور اجتماعی اعمال سے بھی جو ہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے میں آتا ہے۔افلاطون ہونا، افلاطون بننا اَفلاطون قدیم یونان کا ایک بہت بڑا فلسفی، طبیب اور دانشور تھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر بہت اثرانداز ہوئے ہیں اور ارسطو نے اپنی تنقیدوں سے اُن کو نئی قوت اور وسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے