اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
سکتا۔ اس لئے آدمی اپنی مجبوریوں کو تسلیم کر لیتا ہے سماجی نفسیات کو ایک خاص ماحول میں کھول کر دیکھا جائے تو یہ محاورہ جو ایک تصور بھی ہے اور تصویر بھی ایک زندہ حقیقت کی صورت میں سامنے آتا ہے اور انسان یہ کہتا نظر آتا ہے۔ تری مرضی ہے اگر یونہی تولے یونہی سہی۔منہ اتر جانا یا ذرا سا منہ نکل آنا جب آدمی دُکھ سے دوچار ہوتا ہے تو اس کا چہرہ اتر جاتا ہے اس پر کمزور ی نقاہت یا محرومی برسنے لگتی ہے اسی کو ذرا سا منہ نکل آنا یا منہ اتر جانا بھی کہتے ہیں یہ کسی دکھ تکلیف کے باعث بھی ہو سکتا ہے دوسرے محاوروں کی طرح یہ بھی سماجی طریقہ پر اظہار کا ایک حصہ یا انداز ہے اور اس سے ہم یہ سجھ سکتے ہیں کہ بات کہنے کے کیا کیا طریقہ و سلیقہ ہیں جو عام زبان میں برتے جاتے رہے ہیں ۔منہ آنا، منہ باندھ کے بیٹھنا، منہ بگاڑنا، منہ بگڑنا، منہ بنانا، منہ بند کرنا، منہ بند ہو جانا، منہ بنوانا، منہ ڈھانپنا، منہ بھرانا، منہ بھر دینا، منہ بولا، منہ بولی، منہ بولتی مورت، مُنہ پر چڑھنا وغیرہ مُنہ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماجی رویوں اور معاشرتی نفسیات کو پیش کرتے ہیں اس میں منہ چڑھنا منہ چڑھا ہونا یعنی کسی کے لئے بہت عزیز ہونا کہ وہ ناز نخرہ کر سکے منہ آنا منہ کی ایک بیماری بھی ہے اور خواہ مخواہ دوسرے کے مدمقابل آنے کی کوشش بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ خوامخواہ میرے مُنہ آتا ہے منہ کی کھانا بدترین شکست کو کہتے ہیں کہ آخر مُنہ کی کھائی یعنی رُسوائی کے ساتھ اپنی ہار قبول کی۔ مُنہ ڈھانپنا، چھُپانے کو بھی کہتے ہیں اُردُو کا ایک مشہور شعر ہے۔ لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھُپائےبھری محفل سے اٹھو ایا گیا ہوں