اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
شکار پارٹیاں نکلتی تھیں نشانہ باز ساتھ ہوتے تھے اور شکار تقسیم کیا جاتا تھا اور تحفتاً بھیجا جاتا تھا تاریخ میں بادشاہوں کے شکار کا ذکر آتا تھا اور اس میں کیا کچھ اہتمام ہوتا تھا اس کا بھی ہماری سماجی زندگی میں شکار جن جن اعتبارات سے حوالہ بتا رہا ہے اسی کا اثر زبان اور محاورات پربھی مُرتب ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ شکار کرنا اور شکار ہو جانا ایک خاص محاورہ بن گیا جس کے معنی ہیں فریب دینا اور فریب میں آ جانا بہرحال یہ بھی ہماری سماجی زندگی ہے کہ ہم طرح طرح سے فریب دیتے ہیں ۔ اور فریب میں آ بھی جاتے ہیں ۔شکل بگاڑنا، شکل بنانا، شکل سے بیزار ہونا شکل یعنی صورت ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے اسی لئے کہ آدمی اپنی شکل و صورت سے پہچانا جاتا ہے اور ہم دوسروں سے متعلق اپنے جس عمل ورد عمل کا اظہار کرتے ہیں اس میں صورت شامل رہتی ہے فنِ تصویر اور فنِ شاعری میں صورت کی اہمیت بنیادی ہے اور وہ اِن فنون کی جس میں بُت تراشی بھی شامل ہے ایک اساسی علامت ہے۔ حیدرآباد والے صورت کے ساتھ اُجاڑ کا لفظ لاتے ہیں اُجاڑ صورت کہتے ہیں یہ وہی منحوس صورت ہے جس کے لئے ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کی شکل میں نحوست برستی ہے۔ غالب کا ایک مشہور شعر ہے۔ چاہتے ہیں خوب روُیوں کو اسدآپ کی صورت تو دیکھا چاہیئے مُنہ دیکھنا مُنہ دکھانا منہ دکھائی جیسی رسمیں اور محاورے بھی ہمارے ہاں بھی طنز و مزاح کے طور پر بھی صورت شکل کا حوالہ اکثر آتا ہے اور اُس معنی میں شکل سے متعلق محاورے یا محاوراتی اندازِ بیان ہماری زبان اور شاعری کے نہایت اہم حوالوں میں سے ہے۔شکم پرور، شِکم سیر، شکم پُوری پیٹ سے متعلق مختلف محاورات میں آنے والے الفاظ ہیں جس میں بنیادی علامت شِکم ہے۔ یعنی پیٹ بھرنا ہر جاندار کا ضروری ہے کہ اسی پر اُس کی زندگی کا