اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کا نام بھی ہے اور ایسے لباس کو بھی" تن زیب" کہتے ہیں جو جسم پر اچھا لگتا ہے اور جس آدمی کے بدن پر لباس پھبتا ہے وہ زیب تن کہلاتا ہے۔ "زیبائش" سجاوٹ کے لئے آتا ہے اور ایک ایسے زیور کو جو پیروں میں پہنا جاتا ہے اور پیروں کو سجاوٹ بخشتا ہے اُس کو پازیب کہتے ہیں ۔ردیف "س" سات پردوں ، یا سات تالوں میں چھُپا کر رکھنا، سات دھار ہو کر نکلنا سات کا عدد ہماری تہذیبی زندگی اور تاریخی حوالوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں مذہبی حوالہ بھی شامل ہیں ۔ ہم سات آسمان کہتے ہیں سات بہشتیں کہتے ہیں ۔ سات سمندر کہتے ہیں قوسِ قزح (دھنک) کے سات رنگ کہتے ہیں ۔ سات ستارے کہتے ہیں یہ سب گویا ہماری سماجی فِکر کا حصہ ہیں اِس کو اگر ہم محاورات میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کا مزید احساس ہوتا ہے کہ سماجی زندگی سے سات کا عدد کس طرح جڑا ہوا ہے کوئی چیز تالوں میں بند کی جاتی ہے تو ایک سے زیادہ تالے لگائے جاتے ہیں کہتے ہیں لیکن محاورے کے طور پر سات تالوں میں بند کرنا کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں اور اس طرح پردوں کے ساتھ سات پردے کہتے ہیں ۔ مقصد تاکید اور زیادہ سے زیادہ توجہ کی طرف ذہن کو منتقل کرانا ہوتا ہے اور اُس سے سماجی فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ جب کوئی بات ہماری نفسیات کا جُز بن جاتی ہے تو وہ ہمارے لسانی حوالوں میں آتی رہتی ہے اور اُس کے محاوروں میں شامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری نفسیات میں گہرا دخل رکھتی ہے اصل میں لٹریچر کا مطالعہ سماجی نقطہ نظر سے یا ایک معاشرتی ڈکشنری کے طوپر نہیں ہوتا ورنہ محاورہ صرف زبان کا اچھا قدیم رو یہ نہیں ہے جو فرسودہ ہو چکا ہو یہ صحیح ہے کہ ہم شہری زبان میں اب محاورے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے قصباتی اور طبقاتی زبان میں ضرور محاورے کی اہمیت ہے لیکن محاورہ سماج کو سمجھنے کے لئے اور مختلف سطح پر