اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
یافت کی آسامی یافت فارسی کا لفظ ہے اور یافتن مصدر سے بنا ہے اِس کے معنی ہیں پانا، روپیہ پیسہ کا فائدہ ہونا، آسامی موقع جگہ اور ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ اِس اعتبار سے اِس محاورہ کے معنی ہوئے وہ جگہ یا وہ آدمی جس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہویا اس کی توقع ہو۔یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے یقین اعتماد کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جو آدمی کسی پراعتماد کرتا ہے وہی اُس کی بات پر یقین بھی کرتا ہے اور اس کے وعدہ کو سچ سمجھتا ہے لیکن اگر کسی پر بھروسہ ہی نہیں تو اس کی بات کا یقین بھی نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے۔یک جان دو قالب بہت ہی قریبی رشتہ کو کہتے ہیں جب انتہائی محبت ہوتی ہے کہ اُن کے بدن ہی الگ الگ ہیں اُن کی روح تو ایک ہے یہ ہمارے سماج کا ایک آئیڈیل ہے کہ الگ الگ وجود ہونے کے باوجود وہ ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں ایک ہی زندگی جیتے ہیں اور ایک دوسرے سے کبھی الگ نہیں ہوتے۔یوم الحساب قیامت کا دن جس کے لئے تصوّر کیا گیا ہے کہ حشر کا میدان ہو گا تمام لوگ جمع ہوں گے اور سب کے اعمال نامہ ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور خُدا اُن کا فیصلہ کرے گا یہی یوم القیامت ہے اسی کو یوم الحساب کہتے ہیں یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو اس سے متعلق تصورات بھی انہی کے عقائد اور خیالات کا حصہ ہوں گے اس طرح کے محاورہ خاص کلچر سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ اگرچہ عام ہوتا ہے مگر بعض محاوروں کا تعلق علاقائی تہذیب طبقاتی ذہن اور مذہبی تصورات سے ہوتا ہے۔