اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
حوُر اور پری ہمارے ہاں خوبصورتی اور حُسن کا آئیڈیل ہے جب کسی کو بہت خوبصورت ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ تو اُس کو"پری رو" پری چہرہ، پری تمثال اور پری کا نمونہ کہا جاتا ہے کہ آخری لفظ طنز اور تعریض کے طور پر بھی کسی کم صورت یا بدصورت آدمی کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن حُور کا بچّہ کسی خوبصورت بچے یا بچی کے لئے یا زیادہ سے زیادہ کسی حسین مرد یا عورت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ پُری اولاد ہوتی ہے نہ حُور کے ماں باپ ہوتے یہ آئیڈیل ہیں آئیڈیل یعنی اُن کا رشتہ تخلیق سے وابستہ نہیں ہوتا۔ردیف "خ" خار رکھنا، خار گزرنا خار کانٹے کو کہتے ہیں اور کانٹے کی خصوصیت چُبھنا اور شدید اذیت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ یہ اُس کی فِطری خوبی ہے لیکن اُسی سے محاورے کے معنی پیدا ہو گئے اور خار کھانا خار کی طرح کھٹکنا اور خار گزرنا محاورات بن گئے کہ یہ صُورت ناگواری کا باعث ہوتی ہے وہ آدمی بُرا لگتا ہے اور اِس معنی میں وہ خار کی طرح کھٹکتا ہے اور اُس کا موجود ہونا خار گزرتا ہے یہ ہماری سماجی نفسیات کا حصّہ ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ لفظ اپنے معنی کے اعتبار سے لغت کا حصّہ ہوتا ہے۔لیکن جب تک اُس کے مُرادی معنی نہ ہوں وہ محاورہ نہیں بنتا، محاورہ ایک طرح کا ذہنی مفہوم رکھتا ہے جو لغوی معنی سے الگ ہوتا ہے اور تہذیب و سماج سے اُس کا رشتہ نسبتاً گہرا ہوتا ہے۔خاص خاص، خاص محل، خاص اور خاصہ وغیرہ اس کے معنی ہوتے ہیں "مختص" لیکن یہ لفظ کچھ خاص معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے"دیوانِ خاص" (لال قلعہ) اِس کے علاوہ مغل دور میں بادشاہوں کاجو شخص خط بناتا تھا اور بال کاٹتا تھا وہ خاصہ تراش کہلاتا تھا علاوہ بریں بادشاہ کے اپنے لئے یا کسی امیر کے لئے جو خاص کھانا تیار ہوتا تھا وہ خاصہ