اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اُس بت سے خدا سمجھے مسجد کو خدا کا گھر کہا جاتا ہے اور کعبۃ اللہ کوتو خدا کا گھر کہا ہی جاتا ہے اقبال کا مشہور شعر ہے۔ دنیا کے بُت کدے میں پہلا یہ گھر خدا کاہم اِس کے پاسباں ہیں یہ پاسباں ہمارا (اقبال) خدا کے گھر جانے کے یہ معنی ہیں کہ آدمی موت کی منزل سے گزر گیا خدا کو پیارا ہوا اور ایسے ہی اس منزل تک پہنچ گیا جہاں سب کو جانا ہے لیکن جب آدمی شدید بیماری سے شِفایاب ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ خدا کے گھر سے لوٹ آیا۔ اُس کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ جب آدمی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا تو وہ اکثر یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ خدا کی باتیں خدا ہی جانیں ۔ غرض کہ خدا پہلے یا اللہ ہماری تہذیبی نفسیات میں داخل ہے اسی لئے ہم توبہ کرتے وقت بھی ایسی توبہ کرتے ہیں اور قسم کھاتے وقت اللہ کی قسم یا قسم بخدا کہتے ہیں قرآن کو اللہ کا کلام کہتے ہیں ۔ اور کلام اللہ کہہ کر یاد کرتے ہیں ۔ "خدا رسیدہ" ایسے بزرگ کو کہتے ہیں جو رُوحانی طور پر بہت بلند مرتبہ کا انسان ہوتا ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں کرتے اور اللہ کو پہنچا ہوا نہیں کہتے۔ صرف پہنچا ہوا کہتے ہیں ۔خلوت و جلوت، خلوت اختیار کرنا، خلوت میسر آنا، خلوت پسند ہونا، خلوت نشیں ہونا خلوت کے معنی تنہائی، تنہا نشینی، جلوت اُس کے مقابلہ کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں دوسروں کے درمیان ہونا، انجمن یا محفل میں ہونا جو آدمی کسی جلوت کا ساتھی کہتے ہیں اس کے مقابلہ میں پسند کرنا ہے جو بعض لوگوں کی اور خاص طور پر صوفیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت تنہائی میں گزار دیتے ہیں اور اللہ سے لو لگائے رکھتے ہیں جو (خود ایک محاورہ ہے)۔