اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
استعارہ شریک ہے۔ جان جان کر بھی ہم دوسروں کو Teaseکرتے ہیں اور ان کو غصہ دلاتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور زبان کو ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور معنی بہ معنی ایک خاص کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ ۔ اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رویّے اور معاملاتی اندازِ نظر کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ۔ مثلاً"اشنان دھیان" ہندو معاشرے کا ایک خاص اندازِ عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں ۔ آفتاب پرستی قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور اِس آفتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے اشنان کے وقت بھی سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔آفت توڑنا آفت کے معنی مصیبت، سانحہ اور شدید پریشانی کے ہیں ۔ آدمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے آتے رہتے ہیں کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے ہیں مگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے ہیں ۔ انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ"آفت ڈھاتے ہیں "، کچھ لوگ"آفت اُٹھاتے ہیں "، کچھ لوگ"آفت توڑتے ہیں "۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث"آفت رسیدہ" ہوتے ہیں ، جنھیں "آفت زدہ" یا"آفت کا مارا" کہتے ہیں ۔ ہمارے ہاں شاعر اپنے آپ کو سب سے زیادہ آفت زدہ یا آفت رسیدہ خیال کرتا ہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان اور بھی۔ جہان آفت خود ایسا لفظ ہے جو تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ"آپتی" ہے جو سنسکرت لفظ ہے۔ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں آیا ہے اور فارسی میں "پ" کے بجائے"ف" آ گئی اور تشدید غائب ہو گیا اُردو نے بھی اسے فارسی انداز کے ساتھ قبول کیا جس کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ ذہنوں اور زمانوں کے آپسی لین دین کو بھی۔آفت کا پرکالہ (لپکتا ہوا شعلہ)