اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
تاریخ بابو ٹھاکر گلاب سنگھ صاحب متخلص بہ مشتاق سب در سیر ہنر جمن غربی ڈویزن دہلی ساکِن شہر میرٹھ لکھا ہوا ہے۔قطعہ لکھتے ہیں اِس کتاب میں مُشتاقخوب اُردو مُحاوروں کے حال میں نے بھی اس کا بے سرا عدانسخۂ بے نظیر لکھّا سال 1886 نسخۂ بے نظیر مادہ تاریخ ہے پہلے مصرعہ میں بے سراعدا لکھ کر تخرجہ کے اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ عدد خارج ہونا۔ اتنے عدد مادہ تاریخ سے نکالے جائیں گے تب جا کے سالِ تاریخ کے اعداد آئیں گے۔ یہ کتاب اب نایاب ہو چکی ہے اِس کا ایک ہی نسخہ اب دہلی جیسے شہر میں موجود ہے۔ اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے ذاتی کتب خانہ کی زینت ہے۔ موصوف ہی نے مجھے مشورہ بھی دیا کہ میں محاورات کے تہذیبی مطالعہ پر کام کروں یہ کام اب تک راقمہ کی محدُود معلومات کے مطابق کسی دوسرے شخص یا ادارے نے نہیں کیا۔ میرے بعض ساتھیوں اور احباب نے مجھے اس نئی تنقیدی اور تہذیبی مطالعہ کے کام میں مشورہ دیا۔ اور اپنی رائے اور اظہارِ خیال سے میری راہِ فکر و عمل کو روشن کیا۔ میں اپنی اس ناچیز کو شش کے سلسلہ میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی (دہلی یونیورسٹی) ڈاکٹر شریف احمد (دہلی یونیورسٹی ) اور سید ضمیر حسن دہلوی (ذاکر حسین کالج) نیز اپنے علمی احباب اور ساتھیوں کا شکر یہ ادا کرنا اپنا ادبی فریضہ خیال کرتی ہوں ۔ علاوہ بریں میں دہلی اُردو اکادمی کی اشاعتی کمیٹی کے اراکین نیز اِدارے کے دوسرے معزز کار کُنان اور اکادمی کی ایکزیکٹیو کمیٹی کے وائس چیئرمین جناب م۔ افضل صاحب اور مرغوب حیدر عابدی (سکریٹری