اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور اُس میں اُردو پن پیدا کر دینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا کارنامہ ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے دوسری زبانوں اور ادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تو اُسے اپنے طور پر اور اپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔یہ اعتراض کہ اُردو میں تو بہت کچھ عربی فارسی یا پھر تُرکی یا تاتاری زبانوں سے آیا ہے غلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کو زیادہ Enrich کیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے اِس کو دیا نتداری اور ایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں جو علمی دیانتداری کے خلاف ہے۔آپ سے خُوب خُدا کا نام یعنی اپنے سے اچھا تو صرف خدا کا نام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی اِس نفسیات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر آدمی خود مرکزیت کا شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اور مجھ سے بہتر کوئی نہیں بس خدا کا نام ہے اگر اس اعتبار سے محاوروں پر غور کیا جائے تو سماج کہ ذہن و زندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔آیا دیکھنا معنی اپنے اوپر نظر کرنا۔ یہ اِس اعتبار سے بڑی معنی خیز بات ہے کہ انسان دوسروں کے ایک ایک عیب کو ڈھونڈتا ہے اور اپنی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے اور خود اُس کی اپنی ذات کی اچھائیاں بُرائیاں کیا ہیں یہی محاورہ اس شکل میں بھی ہے آیا ہی آیا نظر آنا یعنی اسے اپنا وجود ہی نظر آتا ہے اور اس سے باہر کچھ نظر نہیں آتا یہاں بھی مراد خود غرضی ہے خود شناسی نہیں ۔ خود شناسی میں تو اپنے آپ کو اِمکانی طور پر صحیح پیمانوں سے دیکھنا اور پرکھنا شامل ہے۔ صرف خود غرضی یا آپ اپنی پرستش کرنے کے جذبہ سے خود کچھ دیکھنا نہیں آدمی جب دوسرے کی نظر سے خود کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے" آیا ہے برا ہے" یعنی ہم ہی بُرے ہیں اور تو سب اچھے ہیں ۔اپنا خون بہانا