اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اور سمجھانے کا کام لیتے ہیں ۔ مثلاً دریا بہنا، زیادہ پانی بہنا بھی ہے اور دولت کی فراوانی بھی۔ دریا میں ڈالنا، اس طرح کسی چیز کو پھینک دینا کہ واپسی کی کوئی توقع نہ رہ جائے"نیکی کر دریا میں ڈال" ایسے ہی کسی نفسیاتی عمل اور رد عمل کی طرف اشارہ ہے۔ دریا دلی" بڑے دل" کے لئے آتا ہے۔ دریا سُوکھ جانا بہت مشکل پریشانی اور قحط کے زمانے کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کہتے ہیں کہ اس موسم میں تو دریا بھی سُوکھ جاتے ہیں ۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا کسی بہت بڑی بات کو چھوٹی سی گفتگو میں سمیٹ لینا، علم دریا ہے۔ یعنی عِلم کا کوئی کنارہ نہیں جتنا چاہو علم سیکھتے رہو۔ وہ آگے بڑھتا رہے گا یہی اُس کی فطرت ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں علم کے متعلق کیا تصورات پائے جاتے ہیں دریا کو بہاؤ سے نسبت دی جاتی ہے دریا چڑھتا اُترتا ہے لیکن اس کے بہاؤ کو ہاتھ سے روکا نہیں جا سکتا جیسے مٹھی میں ہوا کو تھاما نہیں جا سکتا۔ سماج میں بعض ایسے رو یہ اور روشیں ہیں کہ اُن کو ہم بُرا کہتے رہتے ہیں لیکن وہ روکی نہیں جا سکتیں ۔ آخر دریا کی روانی بھی تو نہیں رک سکتی وقت کا دھارا بھی تو ہاتھ سے نہیں روکا جا سکتا۔دریا میں رہنا مگرمچھ سے بیر کرنا ہم جہاں رہتے ہیں اس ماحول کو پہچاننا اچھے بُرے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اُس سے مناسب تعلق رکھنا یہ ہمارے سماج کا ہماری زندگی کا اور ہمارے معاملات اور مسائل کا ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ جن کے درمیان ہم رہتے ہیں وہ ہمارے اپنے بھی ہو سکتے ہیں غیر بھی دشمن بھی ہو سکتے ہیں اور دوست بھی یہ مشکل ہے کہ جس کے درمیان ہم رہتے ہوں اُن سے ہم غیریت برتیں دشمنی مول لیں اور پھر آرام و اطمینان سے رہیں اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر تو نہیں رکھا جا سکتا۔ مگرمچھ طاقتور بھی ہوتا ہے اور نقصان پہنچانے والا بھی وہ گھات لگاتا ہے ایسا ہی کوئی شخص خطرناک دشمن اِس ماحول میں بھی ہو سکتا ہے جہاں ہم جا رہے ہوں اور اُس آدمی کے اور ہمارے درمیان مخالفت ہو۔