اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
امیدیں ہمارے خواب ہیں ، خیال ہیں ، توقعات ہیں جو زندگی میں وقتاً فوقتاً، موقع بموقع ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ عورت کے ہاں حمل کی حالت کو اُمید سے ہونا کہتے ہیں ۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔ کہتے ہیں ، جیتے ہیں اُمّید پہ لوگہم کو جینے کی بھی اُمّید نہیں "اُمید آس" ہے، جو آشا کی عوامی شکل ہے اور بعض محاورات کا ضروری جزو ہے۔ "آس رکھنا" تو خیر اُمّید رکھنے کے بارے میں ہے۔ "آس اولاد" اس سے آگے کی بات ہے۔ ہم اولاد سے بھی آس رکھتے ہیں ۔ اور اولاد ہم سے آس رکھتی ہے۔ یہ سلسلہ باہمی طور پر ذہنی رشتوں کو قائم رکھتا ہے۔ دعاؤں میں آس پوری کرنا بھی کہتے ہیں ، پوری ہونا بھی۔ اولاد کی آس تو بہت بڑی آس ہوتی ہے اور جس کے اولاد نہ ہو اس کی تو گویا جڑ بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تو آس اولاد کچھ بھی نہیں ہے۔ بے اولادا ہونا ایک طرح کی نحوست ہے اور عورت تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہت ہی نا مرادانہ زندگی گزارتی ہے۔ "آس لگانا" اور"آس رکھنا" بھی اسی میں شامل ہے اور"آس ٹوٹنا" یا"آس بندھنا" بھی۔ "آسرا" بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ "آسرا ڈھونڈنا"، "آسرا جوہنا"، "آسرا لگانا"، "آسرا باندھنا" بھی اور"آسرا رکھنا" بھی۔ فراق کا شعر ہے۔ آسرا وہ بھی شامِ فُرقت کاخواب تو دیکھیے محبت کاآسامی بنانا "آسامی" جگہ کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی آسامی خالی ہے۔ "آسامی بنانا" ایک محاورہ بھی ہے اور انسان کے فریب، مکر اور دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آدمی جھوٹ سچ بول کر، پُر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اسی کا آسامی بنانا کہتے ہیں کہ اُس نے وہاں آسامی بنا رکھی ہے، یا وہ تگڑم باز ہے، آسامی بنا لے گا۔ آسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور درخواستوں میں بھی نہیں آتا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور جڑیں پھیلاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور ان کا استعمال کم یا ختم ہو جاتا ہے۔