اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
چُلّو ہاتھ کے پیمانے کو کہتے ہیں اب اس کا ذکر بھی اور دور بھی ختم ہوا ورنہ دیہات و قصبات میں بعض محاورات میں چُلّو کا لفظ بہت آتا تھا۔ اور کہتے تھے کہ ڈیڑھ چُلّو پانی میں ڈوب مرو۔ڈیڑھ اور ڈھائی بھی محاوراتی، کلمات میں آتے ہیں ۔ جیسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا یا ڈھائی گھڑی کی، بننا، تجھے بن جائے ڈھائی ڈھائی گھڑی کی۔ یہ عورتیں کو سننے کے طور پر محاورہ استعمال کرتی تھیں ۔ "ڈھائی دن کو جھونپڑا" دہلی کے خاص محاوروں میں ہے اس اعتبار سے ڈھائی چلو لہو پینا یا پلانا اس طرح کا محاورہ ہے جس میں ایک خاص انداز سے معاشرتی فکر اور پیمانہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔مطلب ڈھائی گھڑی یا ڈھائی دن نہیں ہوتا ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کی ناپ کا پیمانہ ڈھائی کو مقر ر کیا جاتا ہے۔ ڈھائی دن کی بادشاہت اسی ذیل میں آتا ہے۔ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے "چھاؤں " ہمارے یہاں سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ سرپرستی محبت اور عارضی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا یا سایہ دیوار بھی میسر نہ آیا۔ سایہ میں پڑا رہنا نکمے پن کو کہتے ہیں اپنا مارتا ہے تو چھاؤں میں بٹھا تا ہے ہاتھوں چھاؤں کرتا ہے۔ اسی چھاؤں کو ہم اپنے دن رات کے تجربہ کی روشنی میں چلتی پھرتی چھاؤں بھی کہتے ہیں کہ ابھی چھاؤں ہے تو ابھی دھوپ ہے اور جہاں جہاں دھُوپ آتی ہے وہاں وہاں چھاؤں تو ہوتی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اُن کے" پینترے"بدلتے رہتے ہیں اچھے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہتے اور بُرے دن بھی گزر جاتے ہیں ظاہر کرنے کے لئے چلتی پھرتی دھُوپ چھاؤں کہا جاتا ہے۔ڈھونگ رَچانا، ڈینگ مارنا ڈھونگ خواہ مخواہ کی بات کو کہتے ہیں اور جو آدمی اس طرح کی باتیں کرتا یا کام کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس کو ڈھونگ رچانا کہتے ہیں کہیں کہیں یہ محاورہ ڈھونگ باندھنے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے اور"ڈینگ مارنا" اس کی ایک اور شکل ہے یعنی جھوٹی سچی باتوں کو بڑھا چڑھا