اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
ٹکسالی بولی، زبان، ٹکسالی بول چال، ٹکسالی محاورہ، ٹکسالی باہر ٹکسال اصل میں بادشاہ کی طرف سے سکّے رائج کئے جاتے ہیں اور کھرے سکّے مانے جاتے ہیں ان کی دارالعرب سکے ڈھالنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور جو سکّہ سرکاری ٹکسال کا نہیں ہوتا ہے اسے کھوٹا سکّہ یا ٹکسال قرار دیا جاتا ہے۔ شہری کی بولی جو بات چیت یا محاورہ مستند ہوتا ہے اس کو ٹکسالی کہا جاتا ہے اور جس سے اِدھر اُدھر کی بولی کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور اُس کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اُسے ٹکسال باہر کیا جاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں اور اس کے آس پاس کی زبان ہی کو سند مانتے تھے چنانچہ میر تقی میر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میری زبان ان کے لئے یا محاورہ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اس کے معنی یہ تھے کہ مردم بیرون جات یعنی دہلی شہر سے باہر کے لوگوں کی زبان اُن کے نزدیک پسند نہیں تھی ٹکسالی زبان یا ٹکسالی محاورہ وہی کہلاتا تھا جو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے آس پاس سنا جاتا تھا۔ٹوپی اُتارنا، ٹوپی پیروں میں ڈالنا، ٹوپی اُچھالنا، ٹوپی بدلنا یہ محاورات نسبتاً نئے ہیں ٹوپی سر کو ڈھکنے کے لئے کُلاہ کی صورت میں ایک زمانہ سے ایران، افغانستان اور مرکزی ایشیاء میں موجود رہی ہے مگر عام طور پر تنہا نہیں اُس کے ساتھ پگڑی بھی ہوتی تھی ہندوستان میں جہاں تک قدیم کلچر کا سوال ہے صرف کبھی ٹوپی کبھی چیز سے ڈھکتے تھے دیہات میں پگڑی رائج رہی ہے بدن پر چاہے لباس کم سے کم رہا ہو مگر سرپر پگڑی رہی۔ اُس کی وجہ سرکو دھوپ کی شدت سے بچانا بھی تھا۔ مدراس میں ہم دیکھتے یہی ہیں ۔ پگڑی کے طرح طرح کے انداز مرہٹوں میں راجپوتوں میں اور جنوبی ہندوستان کے مختلف قبائل میں رہا ہے جس کا اندازہ ان تصویروں سے ہوتا ہے جو مختلف زمانوں اور خاص طور پر وسطی عہد میں رائج رہی ہیں قدیم تر ہندوستانی تہذیب میں سادھو سنت"بال" رکھتے تھے اور اونچا طبقہ مکٹ پہنتا تھا (تاج کی طرح کی کوئی چیز) سر عزت کی چیز ہے اسی لئے سر پر رکھنا سر جھکانا ہمارے ہاں