اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
غُربت پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں اُن میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اُس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یا ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیر جیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔اُلٹا توا ہونا، بے حد کالا ہونا ہندوستان میں سانولا رنگ تو ہوتا ہی تھا اُس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کو ناپسند بھی کیا جاتا رہا ہے اسی لئے اُلٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ آدمی کیا ہے اُلٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اُن لوگوں نے بطور محاورہ رائج کیا جو جو نسبتاً اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔ اُلٹے لفظ اور مفہوم کے ساتھ بہت محاورے بنے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ اُس کے ذریعہ سامنے آتے ہیں مثلاً اُلٹی گنگا بہانا، بات کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔ اُلٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا۔ اُلٹے پاؤں پھر آنا، فوری طور پر واپس لوٹ آنا، الٹے ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طورِ علاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں آتا تھا جس معنی میں اب آتا ہے۔ قوم کا لفظ بھی اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے ایک وقت میں وہ قبیلے خاندان اور گروہ کے معنی میں آتا تھا اب اُس کے معنی ایک خاص سیاسی اور قانونی اسٹیٹ میں رہنے والے کے ہیں ۔ جسے آج ہم ہندوستانی قوم کہتے ہیں اور Nationنیشن کے معنی مراد لیتے ہیں ۔اُلٹی سانسیں آنا یا اُلٹے سانس آنا اِس سے مراد ہے جان کنی کا عالم جب سانس اُکھڑ جاتی ہے دہلی میں اُسے" گھنگرو بجنا" کہتے ہیں کہ وہ خود ایک محاورہ ہے۔الش کرنا