اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اشارہ کرتا ہے اور"رنگ پھیکا پڑنا" بھی اور یہ بھی کہ ہم نے یہ رنگ بھی دیکھے ہیں یعنی ان کے یاکسی کے بارے میں ہماری نظر میں یہ سب باتیں بھی ہیں اُردو کا مشہور مصرعہ ہے"رنگ کے بدل" جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے اس کا پہلا مصرعہ ہے۔ زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا یعنی زمانہ میں کیا کیا انقلاب ہوتے ہیں اور زندگی میں کیا کیا رنگ دیکھنے پڑتے ہیں ۔ کن کن حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔رنگ رلیاں منانا، رنگیں مزاج ہونا ہم رنگیں طبیعت بھی کہتے ہیں مزاج بھی کہتے ہیں رنگین مزاج بھی اور اُس سے مراد شوقین مزاج لیتے ہیں زندگی گزارنے کے کچھ مختلف طریقہ ہیں ۔ سنجیدہ مزاج لوگوں کے کچھ اور طریقہ ہوتے ہیں شوقین مزاج لوگوں کے کچھ اور وسائل کا فرق اس میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے۔ مال دار لوگ یا جاگیردار اور زمین دار خاندانوں کے افراد اکثر عیش اور مزے اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اسی کو"رنگ رلیاں منانا" کہتے ہیں اب اس میں جاگیریں جائدادیں تباہ ہو جاتی ہیں خاندان مفلس ہو جاتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے اور اس پر غیر سنجیدہ افراد اور امیر زادے کوئی توجہ نہیں دیتے کہ کل کو کیا ہو گا۔ اِس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ زندگیاں کیسے گزاری جاتی ہیں اور ان سے اچھے بُرے نتیجے کیا نکلتے ہیں ۔رُوح بھٹکنا، رُوح تھرانا یا کانپنا، رُوح نکالنا، رُوح نکلنا وغیرہ