اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
لاحول بھیجنا یا پڑھنا "لاحول" عربی کا لفظ ہے اور ایک بڑا کلمہ ہے جس کی طرف یہ لفظ اشارہ کرتا ہے اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے ایک پڑھے لکھے طبقہ کا محاورہ ہے جو ہماری زبان میں شامل ہو گیا ہے اس کا پس منظر ہے کہ عربی کے اس فقرہ سے جو لاحول میں موجود ہے شیطانی خیالات ذہن سے غائب ہو جاتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ لاحول پڑھو یا لاحول بھیجو تو ذہن کا خلفشار اور طبیعت کا انتشار ختم ہو گا جو دراصل شیطانی وسوسوں کی وجہ سے ہے نقش لاحول تعویذ کے طور پر باندھا جاتا ہے۔لال انگارا، سرخ انگارا "لال انگارا ہونا" انگارا ہمارے یہاں صبح و شام کا مشاہدہ توہے ہی ایک طرح کا استعارہ بھی ہے سرخی سرخ روئی کا نشان بھی ہے خون کی علامت بھی ہے اور اس کے معنی میں خطرہ کی علامت بھی ہے اور انتہائی غصہ کی بھی علامت ہے اس کی آنکھیں غصّہ کے باعث لال انگارہ ہو گئیں انگارا آگ کا حصّہ بھی ہے اور اس کی علامت بھی آگ کھائے گا انگارے اگلے گا یہ کہاوت اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جیسا آدمی کا رو یہ ہوتا ہے اس کی سوچ ہوتی ہے ایسا ہی اس کا عمل ہوتا ہے اور ایسا ہی اس کو جواب ملتا ہے۔ اور ردِ عمل سامنے آتا ہے اُس سلسلہ عمل و رد عمل کو یہ محاورہ خوبصورتی سے پیش کرتا ہے اور اس میں ایک طرح کا شاعرانہ مبالغہ شامل ہے۔لال پیلی آنکھیں کرنا یا نکالنا آنکھیں آدمی کے جذبات و خیالات کا وہ اظہار ہیں جس میں ظاہری سطح پر لفظ و بیان شریک نہیں ہوتے غصہ ہو یا محبت اپنائیت ہو غیریت اِس کا اظہار الفاظ سے بھی اتنا نہیں ہوتا جتنا آنکھوں کے ذریعہ ہو جا تا ہے اسی لئے غصہ ظاہر کرتے وقت آنکھوں میں سرخی آ جاتی ہے جسے آنکھیں لال پیلی کرنا کہتے ہیں یہ ایک طرح کی لفظی تصویر کشی ہے جس کے رنگ متحرک ہیں ۔ اور جب ہم اِن لفظوں سے گزرتے ہیں تو پوری تصویر آنکھوں میں پھر جاتی ہے اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ محاورے میں معاشرے کے جو مختلف رو یہ اور سوچ کے