اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
کی تہذیب اُردو شاعری اور ادبی شعور پر بہت اثرانداز ہوئی ہے داغ کی شاعری میں تو اس کی بے طرح جھلکیاں ملتی ہیں عام زبان میں طوائف کو کوٹھے والی کہتے ہیں ۔کوچہ گردی کرنا کوچہ گلی محلے کو کہتے ہیں اور طوائف کے کوٹھے کو بھی کوچہ کہا جاتا ہے اسی لئے جب ہم کوچہ گردی ایک خاص مفہوم کو ذہن میں رکھ کر کہتے ہیں تو اس سے مراد طوائف کے کوٹھے پر آنا جانا ہے۔ اسی لئے اقبال نے فرنگیوں کے لئے کوچہ گرد کا لفظ استعمال کیا گلی کوچہ دہلی کی زبان میں عام استعمال میں آتا ہے۔کودوں دلانا، کودوں مشرقی یوپی میں ایک بہت معمولی قسم کا اناج ہوتا ہے اس کو کودوں کہتے ہیں پہلے زمانہ میں پیسے کی کمی تھی اس لئے چیزوں کے بدلہ میں اناج دیا جاتا تھا دوسری جنگ عظیم سے پہلے تک یہ سسٹم کافی رائج تھا اور اب بھی دیکھنے کو مل جاتا ہے کودوں بہت کم درجہ کا اناج ہے اس لئے کودوں دے کر پڑھنا اس کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں دیا مفت پڑھے ہیں ۔ یہ وہی بات ہوئی جس کا اظہار ہم کوڑیوں کے حوالہ سے بھی کرتے ہیں کوڑیوں کے مول خریدنا، یعنی جو چیز بہت سستی مل جائے اُسے کوڑیوں کے مول سے نسبت دی جاتی ہے کوڑیاں بھی سکے یا پیسے ٹکے کے طور پر چلتی تھیں ۔ اور دوسری جنگِ عظیم تک چلتی رہیں ۔ یہ محاورے اس دور زندگی کی یاد دلاتے ہیں جب پیسے پاس ہونا بڑی بات تھی اور اسی سے یہ محاورہ بھی نکلا ہے پیسہ دیکھا ہے یا پیسے کامنہ نہ دیکھو پیسہ پانی کی طرح نہ بہاؤ یا پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔ پیسے پیسے کو محتاج ہو نا بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے اور اس سے ہماری سماجی حیثیت کا بھی تعین ہوتا ہے اور سماج میں پیسے کی اہمیت کا بھی۔