اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
سیپی جیسا منہ نکلنا یا نکل آنا کمزور ہو جانے کو کہتے ہیں جب آدمی کے چہرے پر ذرا بھی گوشت دکھائی نہ دے صرف کھال اور ہڈیاں رہ جائیں تو اس حالت کو سیپی جیسا منہ نکل آنا کہتے ہیں اس سے ہم اپنے سماج کی شاعرانہ روش کو سمجھ سکتے ہیں شاعر تو تشبیہیں اور استعارے پیدا کرتے ہی ہیں عام آدمی بھی اپنی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے تشبیہات کا سہارا لیتا ہے سیپی سے دبلے پتلے منہ کو تشبیہہ دینا اسی فکری عمل کا نتیجہ ہے جس سے کسی معاشرے تہذیبی مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔سیج چڑھنا، شبِ زفاف دراصل شادی شدہ ہونے کو کہتے ہیں شادی کے معنی ہیں عورت و مرد کے آپسی طور پر جنسی روابط جس کے لئے ایک شادی ہو جانے والے جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور خلوت میں اظہارِ تعلق کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی لئے ان کی جائے ملاقات کو سیج چڑھنا کہتے ہیں یہ تعلق زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہے کہ سارے واسطے اسی ایک تعلق کے مرکزی دائرے کے گرد گھومتے ہیں اگر سیج کا یہ رشتہ درمیان میں نہ ہو تو باقی رشتے بھی جو خون سے تعلق رکھتے ہیں اور نسل سے وابستہ ہیں باقی نہ رہیں اور قائم ہی نہ ہوں " شبِ زفاف" بھی جسے دلی والے" تخت کی رات" کہتے ہیں اسی ضمن میں آتا ہے مزید ملاحظہ ہو سہاگ رات۔ بعض الفاظ محاورے اور لفظی ترکیبیں اہلِ علم سے تعلق رکھتی ہیں بعض اہلِ ادب سے اور بہت سے لفظ طبقہ عوام سے۔سیدھیاں چڑھنا اس اعتبار سے ایک اہم محاورہ ہے کہ سیدھ اور سیدھی قدیم ہندو تہذیب کا ایک مقدس مرحلہ ہے یعنی گیان حاصل ہونا جب کہ یہاں بالکل اُس کے خلاف بات کہی گئی ہے اور اس سے سماج کے اُس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ سچائیاں اور اچھائیاں کس طرح اپنے معنی بدل دیتی ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں ۔