اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
وہ کہیں نہ کہیں سے ڈھونڈ کر نکالی جائیں یہ ہمارے معاشرے کاوہ غیر انسانی اور غیر تہذیبی رو یہ ہے جو بہت عام ہے اور غالب کے اس مصرعہ میں اسی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔ ہوتی آئی ہے" کہ اچھوّں کو بُرا کہتے ہیں سچ یہ ہے کہ ہم نے اپنی زبان اور اپنے ادب کا مطالعہ اِس نقطہ سے کیا ہی نہیں کہ ہماری کن کِن باتوں کی طرف ہمارے اشعار ہماری کہاوتوں اور ہمارے محاوروں میں موجود ہیں ۔عیش کے بندے عیشی بندے (عیش اُڑانے والے) ہمارے معاشرے میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ عیش پسند ہویا نہ ہو مگر آرام پسند ضرور ہوتے ہیں اسی لئے ہمارے ہاں آرام کرنے یا ہونے پر بہت محاورے موجود ہیں اور اسی طرح عیش کرنے پر بھی کہ وہ تو عیش کر رہے ہیں ۔ عیش اُڑا رہے ہیں ایسے ہی لوگ جوہر حالت میں مطمئن رہتے ہیں اور خوش نظر آتے ہیں وہ" عیشی بندے" کہلاتے ہیں یعنی انہیں تو ہر حالت میں عیش کرنا ہے کچھ ہویا نہ ہو۔عین غین ہونا، یا عین میں ہونا یہ دو الگ الگ محاورے ہیں اور ان کے معنی ہیں اِدھر اُدھر کی بیکار کی باتیں سوچنا اور ذرا سی دیر میں اپنی توجہ بدل دینا غیر سنجیدہ لوگوں کا یہی رو یہ ہوتا ہے"عین" آنکھ کو کہتے ہیں اور"غین" کے معنی ہیں غائب ہو جانا ذرا سی دیر میں توجہ بدل جانا اور آدمی کا موجود ہوتے ہوئے ذہنی طور پر غائب ہو جانا عین غین ہونا کہلاتا ہے۔ عین میں ہونا جوں کا توں بالکل وہی اور اُسی جیسا ہونا عین مین ہونا ہے وہ تو عین مین ایسا ہی تھا اور اسی طرح لگ رہا تھا یہ بھی ہی کے معنی بھی یہی ہیں یعنی بالکل اُس جیسا سی سے یہ عین مین کا محاورہ بھی بنا ہے اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے عربی الفاظ کو اپنے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اور اپنی زبان میں صرف عربی لفظ داخل نہیں کئے محاورہ بھی تراشے ہیں ۔