اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اُسے تشبیہہ دیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دھوبی کا کتا گھرکا نہ گھاٹ کا، دہلیز نہ جھانکنا، دہلیز پر کھڑا ہونا، اس کے یہ معنی ہیں کہ ادھر کوئی آیا بھی نہیں ۔ دروازے پر کھڑا بھی نہیں ہوا۔ مانگنے کا کوئی سوال ہی نہیں ۔ اصل میں دروازے پر جانا اس کی طرف اِشارہ ہوتا ہے کہ کسی سے کچھ مانگنے گیا ہے اِس کی طرف ہمارے فارسی اور اردو لٹریچر میں برابر اشارے آتے رہے ہیں ۔دہلی کے لیولے ڈالنا یہ عجیب و غریب محاورہ ہے"لیور" مٹی کی تہوں کو کہتے ہیں اگر کسی آدمی کے بار بار آنے جانے سے"لیور" اُکھڑ جائیں اور مٹی کی تہیں باقی نہ رہیں تو آنے جانے کی زیادتی کا اندازہ ہوتا ہے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔ قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا مگر کسی فرض کی ادائیگی یا ضروری کام سے جانا اس حکم میں نہیں آتا۔ اس سے ہم سماجی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ وقت کی بھی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے اور آدمی کی بھی خواہ مخواہ اپنا اور دوسرے کا وقت ضائع کرنا، اچھا نہیں سمجھا جاتا۔دھُند کا پسارا ہونا دھُند کا پھیلا رہنا آنکھوں سے نہ نظر آنا ہے خواہ وہ آنکھوں کی کمزوری کے باعث ہو یا دھُواں گھٹنے کی وجہ سے ہو یا دھُند پھیل جانے کی وجہ سے ہم جب نہیں دیکھ سکتے تو دھوکا کھا جاتے ہیں فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اسی لئے دھوکہ یا فریب کو یعنی"دھُند کا بسارا" کہتے ہیں ۔ "دھُندلکا" اسی سلسلے کا ایک بہت معنی خیز لفظ ہے دھندلکا چھایا ہوا ہے یعنی صورتِ حال صاف نہیں ہے۔دَھن دَھن کرنا