اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
گھنگرو بولنا دہلی والوں کا خاص محاورہ ہے اور اس وقت کے لئے بولا جاتا ہے جب موت سے کچھ پہلے سانس خراب ہو جا تا ہے اور اس میں گھرگھراہٹ آ جاتی ہے لفظ محاورہ میں کس طرح اپنے معنی بدلتے ہیں اس کا اندازہ گھنگرو بولنے سے ہوتا ہے۔ تشبیہہ ہو استعارہ محاورہ کنایہ گفتگو اور مفہوم کی ترسیل کے لئے ایک خاص کردار ادا کرتے ہیں اس کو ہم محاوروں کے لفظیاتی استعمال میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔گھن لگ جانا جس طرح کا کیڑا دیمک ہوتی ہے جو کتابوں کاغذوں اور لکڑیوں کو لگتی ہے اسی طرح کے کیڑے کی ایک اور نسل ہے جس کو گھن کہتے ہیں اور اناجوں کو لگتا ہے اور غذا کا ضروری حصّہ کھا جاتا ہے اسی بات کو آگے بڑھا کر ذہن دل اور دماغ کے لئے بھی گھن لگنا استعمال کرتے ہیں یعنی وہ پہلی سی تیزی و طراری اور چمک دمک باقی نہ رہی۔گھوڑی چڑھنا گھوڑے پر سوار ہونا بہت سی قوموں کی تہذیبی و معاشرتی زندگی میں غیر معمولی اہمیت رکھنے والی ایک صورت ہے ایک زمانہ میں گھوڑے کی سواری فوجی علامت کے لئے غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی اور ایک سپاہی گھوڑا مول لیکر کسی بھی رئیس جاگیر دار یا صاحب ریاست کے یہاں نوکر ہو جاتا تھا سودا کا ایک شعر ہے۔ کہا میں حضرت سودا سے کیوں ڈانواں ڈولپھرے ہے جا کہیں نوکر ہولے کے گھوڑا مول عام طور پر رئیسوں کے ہاں سواری کے گھوڑے رکھے جاتے تھے اور تحفہ کے طور پر بھی پیش کئے جاتے تھے تاریخ میں بعض گھوڑوں کے نام بھی دیئے گئے ہیں مثلاً رستم کے گھوڑے کا نام رخش تھا امام حسینؑ کے گھوڑے کو دُلدل کہتے تھے اور مہارانا پرتاپ کے گھوڑے کو چیتک اس سے ہماری تاریخی اور تہذیبی زندگی میں گھوڑے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔