اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
میں دن کا استعمال علامت کے طور پر ہوتا ہے جیسے اچھے دن سکھ کے دن ہوتے ہیں اور برے دن دُکھوں سے بھرے دن ہوتے ہیں ۔ دنوں کو دھکّے دینا بھی ایسے محاورات میں سے ہے جس سے مراد ہے مصیبت کا وقت گزارنا جب آدمی کے پاس وقت ہو گا اور کوئی کم نہ ہو گا مفید کام تو وہ دن گزارنا دِنوں کو دھکّے دینے کے مترادف ہو گا۔ بُرے دنوں کے دھکّے ہیں یہ بھی ہمارے محاورات میں سے ہیں ۔ آنکھوں میں رات کاٹنا انتظار کرنا جاگتے ہوئے رات گزارنا ایسے عالم میں آسمان کو تکتا رہتا ہے اسی حالت کو تارے گننا کہتے ہیں ۔ تارے تو اَن گنت ہوتے ہیں اُن کو گِنا نہیں جا سکتا لیکن بیکار وقت میں جب کوئی کام نہیں ہوتا تو آدمی اسی طرح کی باتیں کرتا ہے۔ جو پانی اور بے معنی ہوتی ہیں ۔دو دو منہ ہنسنا عام طور پر یہ محاورہ استعمال نہیں ہوتا لیکن دلچسپ محاورہ ہے اور اُس محاورہ کی یاد دلاتا ہے۔ جس میں دو منہ ہونا۔ اُس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جب وہ چاہتے ہیں اپنی بات بدل دیتے ہیں ۔ ابھی کچھ کہا اور کچھ دیر کے بعد کچھ اور کہ دیا یہ یاد نہیں رہا اور جان کر یاد نہیں رکھا کہ پہلے کیا کہا تھا اور کیوں کہا تھا۔ دو دو منہ ہنسنا کسی پُر فریب انداز کی طرف تو اشارہ نہیں کرتا لیکن اس میں ایک نہ ایک حد تک یہ مفہوم موجود رہتا ہے کہ کسی بات پر یہاں ہنس دیئے اور کسی بات پر وہاں یعنی اُن کی ہنسی سنجیدگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کسی بات پر یہاں تبسم بلب ہو گئے اور کسی بات پر وہاں چرنجی لال نے اسی مفہوم پر مشتمل ایک شعر بھی پیش کیا ہے۔ جواس محاورہ کی طرح خود بھی Rareہے۔ یہاں ٹھہرے کبھی وہاں ٹھہرےدو دو مُنہ ہنس لئے جہاں ٹھہرےدودھ بڑھانا، دودھ بھر آنا