اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
دانتوں سے متعلق جو محاورے ہیں ان میں دانتوں تلے انگلی دینا یا دابنا سماجی ردِعمل کا اظہار ہے کہ یہ کیا ہوا کیسے ہوا اور کیوں ہوا۔ اِس کے مقابلہ میں دانتوں میں تنکا لینا ایک خاص طرح کا سماجی عمل ہے جس کا تعلق اظہار عاجزی کرنے سے ہے غالب نے اِس کی ایک موقع پر تشریح کی ہے اور کہا ہے کہ افغانستان کی طرف کے لوگوں نے یہ رسم رہی ہے کہ جب وہ اظہار عاجزی کرتے ہیں تو اپنے دانتوں میں تنکا دباتے ہیں اور دوسروں کے سامنے جاتے ہیں ان کا شعر ہے۔ نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کولیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا دانت رکھنا اور دانت ہونا ایک طرح کا نفسیاتی عمل اور سماجی رویوں کا اظہار ہے کہ آدمی پہلے سے کسی بات کو دل میں ٹھان لیتا ہے اور لالچ کا ایک رو یہ اس کے بارے میں پیدا کر لیتا ہے کہ اگر ایسا ہو جائے اور موت نکلے تومیں یہ کروں گا اس مکان دوکان کھیت زمین یا چیز پر قبضہ کروں گا یہی دانت رکھنا کہلاتا ہے اور اس سے لالچ کا اظہار ہوتا ہے دانت ہونے کے بھی یہی معنی ہیں ۔داؤں پر اڑنا۔ داؤں پر چڑھنا، داؤں کرنا، داؤں کھا جانا، داؤں لگنا، داؤں میں آنا، داؤں کھیلنا، داؤں پر لگانا۔ وغیرہ اصل میں فنِ کشتی گری سے متعلق محاورات ہیں جو ہماری سماجی زندگی میں بھی کا م آتے ہیں ۔ اور مختلف انسانی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں مثلاً داؤں آنا داؤں جاننے کو بھی کہتے ہیں اور موقع ملنے کو بھی یہ شطرنج کے کھیل سے متعلق بھی محاورے کی ایک صورت ہے اسی لئے داؤں کھیلنا کہتے ہیں ۔ جس کا مقصد دوسرے کو پھنسانا ہوتا ہے۔ جو اس طرح پھنس جاتا ہے وہ گویا داؤں پر چڑھ جاتا ہے اور پھنسا نے والے کو داؤں ہاتھ آ جاتا ہے یا اس کا داؤں چل جاتا ہے۔ اسی کامیابی کو داؤں لگنا بھی کہتے ہیں کہ اس کا داؤں لگ گیا بلی جب چڑیوں کو یا چوہے کو شکار کرنا چاہتی ہے تو کوئی نہ کوئی داؤں کھیلتی ہے یہ فریب دینے کا طریقہ ہوتا ہے یعنی ایک ہی بات پر زور دینا ہے جبکہ داؤں کا تعلق تو صورتِ حال پر نظر رکھنے سے ہوتا ہے۔