اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالالیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا اس میں سنبھلنا سنبھالنا اور سنبھالا لینا تینوں چاروں آ گئے۔ 1920ء کے قریب ترکی کو مرد بیمار کہا جا تا تھا سنبھالا لیتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری زندگی ہماری تاریخ اور ہماری سماجی زبان کو پیش کرتے ہیں اور ایک حوالہ کا کام دیتے ہیں ۔سو جان سے عاشق ہونا، سو جان سے صدقے جانا، یا نثار ہونا یا نچھاور ہونا ہمارے یہاں صدقے قربان ہونا محاورہ ہے صدقہ ایک مذہبی اصطلاح بھی ہے جس کے ساتھ صدقہ دینا آتا ہے یا صدقے کرنا آتا ہے یعنی کسی کی جان کی حفاظت یا مال کی حفاظت کے خیال سے خیرات کرنا۔ ہم اس عمل کو طرح طرح سے دہراتے ہیں مثلاً جب ڈومنیاں گاتی تھیں تو ان کو رواں پھیر کر کے روپے پیسے دیئے جاتے تھے وار پھیر اس شخص کے لئے ہوتی تھی جس کی جان کا صدقہ دینا منظور ہوتا تھا یہی صورت اس وقت ہوتی تھی جب بھنگنیں بدھاوا پیش کرتی تھیں یعنی مبارک باد کے لئے گانا اور ناچنا کسی کے ہاتھ سے فقیر کو پیسے دلوانا بھی صدقہ دینے یا صدقہ کرنے کے مفہوم میں شامل ہوتا تھا۔ قربان کرنا بھی اسی معنی میں آتا تھا دہلی میں اب بھی دستور ہے کہ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے نام پر جانور قربان کیا جاتا ہے ہندوؤں میں دُودھ دریاؤں میں بہانہ یا تالابوں اور پوکھروں کے کناروں پر جانور ذبح کرنے کو صدقہ کے مفہوم میں شامل کرتے تھے اب بھی راجستھان میں ایسا ہوتا ہے بنگال میں " بھینا" قربان کیا جاتا ہے اِس کو بَلی چڑھانا کہتے ہیں ۔ عربوں میں جس اوٹنی کو ایسے کسی مقصد کے لئے"نحر" کیا جتا تھا خاص طریقے سے کاٹنا تو بلیَّہ کہتے تھے انسان کی اپنی قربانی بھی دی جاتی تھی۔ قدیم قوموں میں اس کا دستور رہا ہے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی قربان کئے جاتے تھے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ تو یہ سلوک عام تھا اور اُن کی بوٹیاں کر کے چیلوں کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں ۔