اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
زہر ہلاکت پیدا کرنے والی یا ہلاکت دینے والی شے کو کہتے ہیں اور سماجی زندگی میں تلخیاں پیدا کرنے والی یا نفسیات کو بگاڑنے والی کسی بھی بات کو زہر سے تشبیہہ یا نسبت دیتے ہیں جو بات یا جو شئے آدمی با دلِ نخواستہ کرتا ہے اُس کو زہر مار کرنا کہتے ہیں زبردستی کسی سے کوئی بات منوانا یا کسی بات پر صبر کرنا زہر جیسے گھونٹ پینا کہا جاتا ہے۔ زہر دے کر مار تو سکتے ہی ہیں مگر ناگواری کے عالم میں اگر کوئی چیز کھائی جاتی یا پی جاتی ہے اُسے بھی زہر مارنا کہتے ہیں ۔ زہر کا مز ہ چکھنا یا زہر چکھنا بھی اسی طرح کا محاورہ ہے زہر ہونا بھی اور زہر لگنا بھی کہ اس کی بات مجھے زہر لگتی ہے جب کوئی کسی پر بہت رشک یا حسد کرتا ہے تو اُس کو زہر کھانا کہتے ہیں میرے دشمن اس بات پر زہر کھاتے ہیں "زہراب ہونا" پانی میں زہر ملنا ہے یا کسی بھی پینے کی شے کا"زہرناک"یا حد بھر تلخ ہو جانا ہے جیسے چائے کا گھونٹ بھی مجھے زہراب ہو گیا" یا یہ شراب نہ ہوئی زہراب ہوا ایسے شربت کو بھی میں تو زہر اب سمجھتا ہوں ۔ "زہر میں بجھا" ہوا ہونا بھی زہر جیسی کیفیت کو اپنے ساتھ رکھنا جیسے زہر میں بجھے ہوئے نشتر زہر میں بجھے ہوئے تیور زہر میں بجھے ہوئے تیر جب کسی ہتھیار کو اس غرض سے زہر میں بجھایا جاتا ہے کہ اس کا زخم پھر اچھا نہ ہو تو وہ جنگ کا نہایت اذیت ناک طریقہ ہوتا ہے انسانی نفسیات کے اعتبار سے بول بات میں بھی زہر مِلا ہوتا ہے اور زہریلے بول کہتے ہیں اِس معنی میں زہر ایک سماجی استعارہ بھی ہے اور ہماری گفتگو کے لئے غیر معمولی طور پر ایک علامتی کردار ادا کرتا ہے۔زیب تن کرنا۔ زیب دینا اپنے کو لباس پہننے کا ایک مقصد زیب دینا اور"زیب تن کرنا" بھی ہوتا ہے، ویسے"زیب دینا" ایک محاورہ ہے اور ہم یہ کہتے نظر آتے ہیں ۔ زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھا کہیے اور جب بات غیر موزوں اور نامناسب ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ بات آپ کو زیب نہیں دیتی اور اچھا لگنے والی شے کو دیدہ زیب کہتے ہیں "تن زیب" ایک کپڑے