اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
دلہن کی سیج پر پھول بچھائے جاتے ہیں پنکھڑیوں کی بارش کی جاتی ہے اور خوشی کے موقع پر پھولوں کے گہنے پہنے جاتے ہیں ۔ دلی میں تو گرمی کے موسم میں پھولوں کے اس طرح کے ہار بکتے ہیں جو عورتیں اپنے جوڑے میں لگاتی ہیں ۔ یا کانوں میں پہنتی ہیں ۔ یا ہاتھوں میں پہنتی ہیں ۔ جنوبی ہندوستان میں تو مزدور عورتیں بھی عام طور سے پھول پہنتی ہیں یہیں سے محاورے تشبیہیں استعارے اور تمثیلیں پیدا ہوئی ہیں ۔ پھول کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ قابلِ قدر ہوتا ہے اور محاورے میں یہ کہتے ہیں پھول نہیں پنکھڑی صحیح بے حد اچھا سلوک کرنا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی پھولوں کی چھڑی بھی نہیں ماری تمام تر ناز بردار یاں کیں وغیرہ پھولوں میں تکنا بے حد ہلکا پھلکا ہونا ہے پھول پان بھی اسی صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔پیر پھیرنے جانا یہ کسی کی آمد کے سلسلے میں بطورِ تشکر اس کے ہاں جانے کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جیسے غالب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ مجھے ان کا ایک آنا دینا تھا۔ ہاں ملاقات کی غرض سے کسی کے آنے کی طرف اشارہ ہے۔ علاوہ بریں دہلی میں یہ ایک خاص رسم ہے جو کسی بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکی سُسرال سے میکے نوے مہینے آتی ہے اسے پاؤں پھیرنا بھی بولتے ہیں اس لحاظ سے خاص طور پر اس کے محاورے کی تہذیبی اہمیت ہو جاتی ہے۔پیر نابالغ پیر بوڑھے کو کہتے ہیں اور جب کسی آدمی کو بُڑھاپے تک عقل نہ آئے تو طنز کے طور پر اُسے پیرنا بالغ کہتے ہیں یہ مذاق اڑانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے وہ بوڑھے ضرور ہیں مگر پیر نا بالغ ہیں اس سے ملتا جُلتا ایک اور محاورہ ہے کہ بوڑھا اور بچہ برابر ہوتا ہے یہاں اُن کمزوریوں کی طرف اشارہ ہوتا ہے جو بڑھاپے میں عود کر آتی ہیں اور آدمی بچوں جیسی باتیں کرنے لگتا ہے۔پیندی کا ہلکا ہونا، پیندی کے بل بیٹھ جانا جو آدمی مستقل طور پر جم کر نہیں بیٹھتا کبھی یہاں کبھی وہاں کبھی اِدھر کبھی اُدھر رہتا ہے۔ اور اس طرح مستقل مزاجی نہیں ہوتی اُس کو پیندی کا ہلکا ہونا