اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
بکرے کا گوشت اگرچہ آٹھ آنے سیر تھا اور اس سے پہلے اور بھی سستا ہو گا۔ مگر ایک غریب آدمی کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے وہ تو دال دلیا سے اپنا کام چلا لیتا تھا اس کا اصل مسئلہ تو پیٹ بھرنا تھا۔ روکھی روٹی نہ کھا کر وہ دال سے کھاتا تھا۔ اس پر بھی خوش ہوتا تھا اور خدا کا شکر ادا کرتا تھا آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دال روٹی آرام سے کھانے دو یہ ہمیں پیٹ بھرکر مل رہی ہے یہ بھی کیا کم ہے۔ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے تو اتنی غربت تھی کہ شادی کے موقع پر دال چاول اسپیشل کھانے کے موقع پر کھلائے جاتے تھے دال دیگ میں پکتی تھی اور چاول کڑھائی میں اُبالے جاتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ محاورے ہماری معاشی یا مالی حالت کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا روکھی روٹی اور خشک نوالے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کبھی کبھی تو ایک ہی روٹی ہوتی تھی اس کے مقابلہ میں اس کو خوشحالی تصور کیا جاتا تھا کہ روٹی پر روٹی رکھ کر کھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس سطح پر اگر محاوروں کا مطالعہ کیا جائے توہم ایسی تاریخی معاشرت کے بارے میں بھی بہت سی سچائیوں کو جان سکتے ہیں اور ایک زمانہ کے زبان کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو اس دور کی ذہنی اور نفسیاتی سطحوں اور حالتوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے غور نہ کرنا۔دال میں کچھ کالا ہے، دال نہ گلنا دال پکائی جاتی تھی اور وہ بھی دھوئی ہوئی دال تو اُس میں ایسا تو تھا نہیں کہ اُس میں گرم مصالحہ ڈالا جاتا ہو۔ لونگیں ، سیاہ مرچیں اور کالا زیرہ، دال میں کون ڈالے کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے جو بے چارہ دال کھا رہا ہے وہ اوپر سے خرچ کرنے کے لئے مزید پیسے کہاں سے لائے اسی لئے دال میں کوئی کالی چیز نہیں ہوتی تھی اور اگر نظر آ جاتی تھی تو شبہ کی بات بن جاتی تھی کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ اسی کو سماجی زندگی میں محاورے کے طور پر استعمال کیا گیا تو اسی سے شکوک و شبہات کی طرف اشارے ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔