اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
لڑائی مول لینا، لڑائی باندھنا لڑائی جھگڑا یا لڑائی بھڑائی ہمارے عوامی سماج کے عام رو یہ ہیں وہ ذرا سی بات پر لڑ بیٹھتے ہیں ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جلد ہی صلح بھی کر لیتے ہیں ہمارے یہاں لڑائی اور اُس سے متعلق اسی نسبت سے بہت سے محاورے بھی ہیں اس میں لڑائی کرنا تو خیر ہے ہی لڑ پڑنا لڑ بیٹھنا بھی عام محاورہ ہے۔ لڑائی مول لینا ایک خاص طرح کا محاورہ ہے اس لئے کہ لڑائی مول نہیں لی جاتی لیکن آدمی ہر طرح لڑائی جاری رکھنے پر آمادہ ہو جائے تو اس سے جواب میں لڑائی کو بہرحال انگیز کیا جاتا ہے۔ اسی کو لڑائی مول لینا کہتے ہیں کہ ضرورت کوئی نہیں تھی بے ضرورت جھگڑے کھڑے کئے اور لڑائی مول لی گئی کبھی کبھی آدمی جھڑا لو طبیعت کا ہوتا ہے اس وقت بھی کہتے ہیں کہ یہ صاحب یا صاحبہ تو خواہ مخواہ لڑائی مول لیتے ہیں ۔لڑے فوج نام سردار کا اصل میں کام کرنے والے تو کچھ اور ہی لوگ ہوتے ہیں چاہے وہ محنت و مشقت کا کام ہویا ایثار و قربانی پیش کرنا ہو ملک فتح کرنا ہو یا میدان مارنا اس میں ساری زحمتیں تو لشکریوں کے حصّہ میں آتی ہیں مگر نام امیر سردار فوج لشکر کے سپہ سالا ر یا پھر قوم کے لیڈر کا ہوتا ہے یہ معاشرے کی بڑی ستم ظریفی ہے مگر تاریخ اسی طرح بنی ہے اور یہ اسی پر طنز ہے ذوق کا مصرعہ ہے۔ سچ کہا ہے دھار کاٹے نام ہو تلوار کایعنی کام کسی کا نام کسی کالال لگ جانا۔ لال لگے ہوئے ہیں ہم اپنے لباس میں قیمتی چیزیں شامل کرنے یا جزوِ لباس بنانے کا شوق رکھتے ہیں یہ کام صرف بڑے لوگ ہی کر سکتے ہیں لیکن سماج کا عام رو یہ یہ ہے کہ خواہ مخواہ کسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ پسند کرتے ہیں تعریفیں کرتے ہیں اس کی طرف سے بڑائیاں مارتے ہیں اسی کے جواب میں کوئی سماجی طنز کے طور پر کہتا ہے اس میں کیا لال لگ رہے ہیں یعنی ایسی کون سی بڑائی یا تحفگی کی بات ہے۔ جس کی وجہ سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے اور دوسرے کا انکار کیا جا رہا ہے۔