اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ہی اس زمین کے ٹکڑے میں کوئی چیز نہیں ہوتی بس دور تک میدان ہی میدان ہوتا ہے۔کفرانِ نعمت، کفر توڑنا، کفر بکنا، کفر کا کلمہ بولنا "کفر"اسلام کے مقابلہ میں بے دینی اور گمراہی خیال کیا جاتا ہے اسی لئے مسلمانوں کے عام طبقہ میں کفر کا استعمال بے دینی اور لامذہبی کے معنی میں آتا ہے اور وہ ایسے کلمات کو جنہیں مذہب کے خلاف سمجھتے ہیں کفر کی باتیں کافرانہ خیالات" کفر بکنا" اور کافر ہو جانا کہتے ہیں اگر آدمی خدا کی نعمت کا اچھے عمل کا اچھے خیالات کا قدردان نہیں ہوتا تو اس کو کفرانِ نعمت کہا جاتا ہے۔ صوفیوں کے ہاں کفر کے معنی دوسرے کے ہیں وہ کفر کو عین ایمان تصور کرتے ہیں کفر کے کلمات بولنا عام مفہوم میں آتا ہے یعنی کافروں جیسی باتیں کرنا۔کلام اللہ اٹھانا قرآنِ پاک کو کہتے ہیں اور قرآن کو درمیان میں رکھ کر قسم کھانا گویا اپنی سچائی و نیکی کا اظہار کرنا ہے قرآن اٹھانا بھی اسی معنی میں آتا ہے اور مسلمان کلچر کے اس رو یہ کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ قرآن کو سب سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ کلام اللہ کی قسم کھاتے ہیں حلف اٹھانا بھی قرآن کو درمیان میں رکھ کر قسم کھانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔کلمہ، کلمہ کا شریک، کلمۂ گو، کلمے کی انگلی، (انگشتِ شہادت) کلمہ بھی مسلم کلچر کی خاص علامتوں میں سے ہے کلمہ پڑھنے کے معنی مسلمان ہو جانے کے بھی ہیں کہ اس نے کلمہ پڑھ لیا یہاں کلمہ سے مراد کلمۂ توحید ہے یعنی خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنا اور اُس کے سچے رسول کی صداقت پر گواہی دینا کلمہ پڑھ کر ثواب بھی پہنچایا جاتا ہے اور اُس کا ثواب مرنے والے کی روح کو پہنچایا جاتا ہے یہ باتیں مسلمانوں کے کلچر اور ان کی مذہبی اور تہذیبی نفسیات میں داخل ہے۔