اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
آسمان پر اُڑنا۔ آکاس پھل یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین آسمان کے قُلابے مِلانا بھی کہتے ہیں ۔ آسمان ہماری ایک اہم تہذیبی علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی آسمانی مذہبوں سے تعبیر کرتے ہیں ۔ آسمانی کتابیں کہتے ہیں ، آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں ۔ سنسکرت میں اسے"آکاش وانی" کہا جاتا ہے۔ مسلم اقوام میں آسمان کا ایک اور کردار بھی ہے کہ وہ فریب کار ہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، دِلوں میں فرق ڈالتا ہے اور عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور اردو شعراء کے ہاں آسمان کی شکایتیں ملتی ہیں اور اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں ۔ شبِ وِصال بہت کم ہے، آسماں سے کہوکہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جُدائی کا اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ آدمی اگر زیادہ مکّاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آسمان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بہت سے محاورے آئے ہیں جن سے ان ذہنی رویّوں کا پتہ چلتا ہے جو آسمان سے متعلق ہیں ، جیسے آسمان کے تارے توڑنا، آسمان سے باتیں کرنا، آسمان میں پیوند لگانا، آسمان پر دماغ ہونا، آسمان پر چڑھنا، آسمان کو ہلا دینا، آسمان جھانکنا یا تاکنا۔ اِس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔ اِس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں ، اُن کی طرف اُن میں اشارہ مقصود ہوتا ہے، جیسے آسمان پھٹ پڑنا، آسمان ٹوٹ پڑنا، آسمان سے بلاؤں کا اُترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے۔ ہر بلائے کز" آسمان آیدخانۂ انوری تلاش کُند یعنی جو بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انوری کا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آدمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ آفتیں آتی ہیں ۔