اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
شیشے میں اُتارنا شیشہ آئینہ کو بھی کہتے ہیں اور شراب کے اُس برتن کو بھی جس سے شرابِ جام میں اُنڈیلی جاتی ہے اس کے علاوہ شیشے کا ایک طِلِسمی تصور بھی ہے کہ پریوں کو شیشے میں قید کیا جاتا ہے اسی سے محاورہ پیدا ہوا ہے اگر کسی آدمی سے معاملہ کرنا مشکل ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس مشکل پر قابو پا لیا جاتا ہے تو اسے شیشے میں اتارنا کہتے ہیں داستانوں میں پریوں کے کردار آتے ہیں پریاں کسی کے قابو میں نہیں آتیں مگر کسی نہ کسی ترکیب اور طریقہ سے انہیں بھی قابو میں کیا جاتا ہے تو اسے کہتے ہیں شیشے میں "پری کو اُتار لیا"یعنی اُسے قابو میں کر لیا جو قابو میں نہیں آتا۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ طلِسماتی کہانیوں کا ہمارے ذہن زبان اور ادب میں جو اثر ہے اسے ہم اپنے محاورات میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ زبان کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کا دخل ہوتا ہے ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے اور وہیں سے پھر اُس سوچ یا اس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں اور وہ محاورات کے سانچے میں کچھ ڈھلتے ہیں اور ایک طرح سے Preserveہو جاتے ہیں ۔شیطان اُٹھانا، شیطانی لشکر، شیطان سر پر اُٹھانا، شیطان کا کان میں پھُونک دینا، شیطان کی آنت شیطان کی خالہ، شیطان کی ڈور، شیطان کے کان بہرے، شیطان ہونا، شیطان ہو جانا "شیطان"بُرائی کا ایک علامتی نشان ہے جو قوموں کی نفسیات میں شریک رہا ہے خیر اور شر بھلائی اور بُرائی معاشرہ میں مختلف اعتبارات سے موجود رہی ہے اسی کا ایک نتیجہ شیطان کا تصور بھی ہے کہ وہ بُرائیوں کا مجسمہ ہے اور بد اعمالی کا دیوتا خیر کا خداوند یزدانِ پاک ہے اور بُرائی کا سرچشمہ شیطان کی ذات ہے۔ اب آدمی جو بھی بُرائی کرے گا اُس کی ذمہ داری شیطان پر ڈال دی جائے گی اور کسی نہ کسی رشتے کو شیطان ہی کو سامنے رکھا جائے گا اگر کوئی بے طرح