اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
اور یہ کہنا مشکل ہو کہ اب یہ صبح سے شام یا شام سے صبح کرے گا یا نہیں ایسے ہی موقعوں پر کہتے ہیں کہ اس کی تو"صبح شام"ہو رہی ہے یا بڑھاپے کے بعد جب زندگی کے خاتمہ کا وقت آتا ہے تو میر کے الفاظ میں اِس طرح کہا جاتا ہے۔ صبح پیری شام ہونے آئی میرتو نہ جیتا اور بہت دن کم رہا غالب نے صبح کرنا شام کا اسی اِضطراب اور بے چینی کے عالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔ کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھصبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کاصبر پڑنا، صبر لینا، صَبر کا پھل میٹھا، صبر بڑی چیز ہے "صبر" عربی لفظ ہے مگر ہماری زبان میں کچھ اِس طرح داخل ہے کہ وہ اُس کے بنیادی الفاظ میں شامل کیا جا سکتا ہے اِسے ہم اِس بات سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ صبر کرنا صبر سے کھانا بے صبر ہونا یا صبر و شکر کرنا ہماری اخلاقیاتی فکر کا ا یک جُز بنا ہوا نظر آتا ہے۔ معاشرے میں چاہے وہ گھریلو معاشرہ ہے یا سرکار و دربار بازار سے تعلق رکھتا ہو معاملات کی اونچ نیچ اور دیانت کے ساتھ بددیانتی ہمارے معاشرے کا ایک مزاج اور ہمارے معاملات کا ایک جُز بن گیا ہے اس پر ہم لڑتے جھگڑتے ہیں من مٹُاؤ پیدا ہوتا ہے اگر یہ صورت مستقل طور پر رہے تو زندگی میں ذرا بھی تواضع باقی نہ رہے اسی لئے صبر کرنے کی بات کی جاتی ہے صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ صبر بڑی چیز ہے یا صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یا اللہ کو" صبر" بہت پسند ہے یہ سب باتیں ہماری نفسیاتی تسکین کے لئے ہوتی ہیں اور جو آدمی بے صبرے پن کا اظہار کرتا ہے اس پر ہم کسی نہ کسی طرح معترض ہوتے ہیں قرآن نے خود بھی ایک موقع پر کہا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔