اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی اسی لئے مردوں کی بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہو تی ہیں ۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز طرار ہوتی ہیں ۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں ۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں ۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں ۔ مردوں کے برعکس انہیں الفاظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں محاورے وضع کر لیتی ہیں ، جن میں اکثر خوش آواز مترنم اور پرلطف ہو تے ہیں ۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ موجود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لئے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شاذ ہی نظر آتے ہیں ۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں ۔ زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورتانوکھا ہے چلن سارے جہاں سے زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پریہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں ، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں ۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالئے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صناعی طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔بہادر شاہ ظفر کے عہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے لکھا ہے۔ قلعہ معلیٰ کی تہذیب کا ایک اہم جز وہ زبان تھی جس میں شاہ علم ثانی اور اُن کے بعد ظفر نے بھرپور شاعری کی تھی۔ اس زبان کی گونج اور بازار سے گزرتی ہوئی کابلی دروازے کے اس تنگ و تاریک مکان تک سنائی دیتی تھی جہاں ذوق کا مسکن تھا اور پھر یہ گونج سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس گونج میں