اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یا آج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔ پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فا رسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہونگی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں ۔ خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کا کلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔ آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناں ، حا تم، سودا، نا سخ، شا ہ نصیر اور ذوق نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا ح زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی۔ اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سر ہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں ۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتا ہے۔ نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں ۔ ان جزوی اختلافاتِ زبان کے علاوہ انتہا ئی نما یاں خصوصیت مردوں اور عورتوں کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں بیان کر تی ہیں ۔ بیگمات کی زبان میں ہر قسم کا جنسی افعال کے لئے پر دہ پوش اصطلاحات و محاورات مو جود ہیں ۔ مثلاً میلے سر سے ہو نا، گود میں پھول جھڑنا، دوجیاں ہونا بات کر نا جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لئے بنائے اور اُن کا چلن عام کیا۔ جو ہونی تھی وہ بات ہو ئی کہاروں چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں مَردُوا کہتا ہے آؤ چلو آرام کریں جس کو آرام یہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج۔