اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ |
|
ذوق بھی کھنچے چلے گئے اور پھر دلّی کا محاورہ اور روزمرہ جس طرح ذوق کی شاعری میں رچ بس گیا، اس کی دوسری اور نسبتاً زیادہ خوبصورت مثال داغ کے یہاں ملتی ہے۔ زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ اور بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ محاورات وہ ننھے مرقع ہیں جو کسی سماج کے تجربات، تصورات اور تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا زبان کے زوال اور عدم مقبولیت کا سبب بنتا ہے۔ بیگمات نے اپنے محاوراتی اسلوب میں مجاز و مبالغہ تشبیہ اور تمثیل، مصوری و محاکات اور رمزیت و اشاریت کے سارے جوہر محفوظ کر لئے تھے۔ اسی لئے جب ہم ان کی صدائے بازگشت سنتے ہیں تو بیقرار ہو جاتے ہیں اظہارِ خیال اور ادائے مطلب میں پیچیدگی سے بچنے کے لئے بول چال کی زبان روزمرہ اور محاورے کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے زبان کا ذوق رکھنے والوں نے ادبی شبہ پاروں میں محاورات پر ضرور نظر کی ہو گی۔ یہاں چند محاورات مثال دینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں ۔ چلوؤں لہو خشک ہونا، اُوڑا پھڑنا، سر بالوں کو آنا، اٹھوائی کھٹوائی لینا، منہ تھوتھائے رہنا، دے دوں کا پانی ڈھلنا، تکلفی کے سے بل نکالنا، آنکھوں پر چربی چھانا، نعمت کی اماں کا کلیجہ ہونا، محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال کا بھی ایک بیش بہا خزانہ ہے جو ہماری زبان میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی، جس کے ہاتھ ہنڈیا ڈوئی اس کا ہر کوئی، انیس و بیس روڑے اُچھلیں ، سرخ رو چونڈا ایمان بھونڈا، مائی جی کا تھان کھیلے چوگان، ٹاٹ کی انگیا، مونچھ کا بخیا، جہاں بہو کا پسار وہیں خسر کی کھاٹ، ان محاورات اور ضرب الامثال کی مدد سے کچھ مصنفین نے ابلاغ اور معانی آفرینی کے کمالات دکھائے ہیں اور کچھ مصنفین صناعی کلام کی ان بھول بھلیوں میں گم ہوکے رہ گئے۔ سنا ہے کوئی جاٹ سرپر چارپائی لئے کہیں جا رہا تھا۔ ایک تیلی نے دیکھ لیا اور جھٹ پھبتی کسی۔ ۔ جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ۔ جاٹ اُس وقت تو چُپ ہو گیا مگر دل میں بدلے کی بھاؤنا لئے بیٹھا رہا۔ ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہو لئے جاتا ہے جاٹ نے جواباً کہا تیلی رے تیلی ترے سر پہ کولہو۔ تیلی ہنسا اور کہنے