احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
گیا اور حاضری سے معانی کی درخواست کی گئی مگر عدالت نے منظور نہ کی۔ بلکہ کہاکہ وہ عدالت کے روبرو اپنے وکیل کو سیاہ سفید کا اختیار دے۔ چنانچہ بڈھے میاں کو ایک مصنوعی ڈولی پر بٹھا کر شہر گورداسپور سے حاضر عدالت کیا گیا۔ اس بے چارے کی یہ حالت تھی کہ دستخط بھی نہ کرسکا۔ آخر انگوٹھا لگا کر اپنے سیاہ وسفید کا مختار وکیل کو کرگیا۔ ایسی حالت میں بڈھے کی یہ کیفیت کہ ؎ اگر ماند شبے ماند شب دیگر نمے ماند کچہری میں مارا مارا کھینچا پھرے۔ مگر کیا کریں پیرومرشد کی تابعداری ؎ اس کشمکش سے دام کی کیا کام تھا مجھے اے الفت چمن تیرا خانہ خراب ہو مستغیث کی طرف سے چار گواہ گزرے۔ پہلا گواہ مستغیث نے بابو محمد علی ایم اے مرزا کے ایڈیٹر کو گزارا جس کی شہادت اس امر کی تھی کہ یہ کتاب مرزا قادیانی کی تصنیف ہے یا نہیں؟ جس کا جواب بابو صاحب نے یہ دیا کہ میرے خیال میں یہ کتاب مرزا قادیانی کی ہے (کیا ہی بچائو کی بات ہے) یہ بھی پوچھا گیا کہ ضلع جہلم میں جو مستغیث کا وطن ہے یہ کتاب مرزا قادیانی نے شائع کی یا نہیں؟ بابو صاحب نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں۔ (کیوں بابو جی آیت قرآنی ’’لاتکتموا الشہادۃ‘‘(گواہی مت چھپائو) کے یہی معنی ہیں؟ مسیح موعود کی تعلیم کا یہی اثر ہے؟) دوسرے گواہ ملک تاج الدین صاحب اہلمد ضلع جہلم گزرے جن کی شہادت کا مطلب یہ تھا کہ مستغیث صاحب ثروت وحیثیت رئیس ہے۔ تیسرے گواہ مولوی فاضل ابوالوفاء ثناء اﷲ صاحب امرتسری گزرے جن کی گواہی پر مرزا اور مرزائی جماعت کو خاص نظر تھی۔ آپ نے مستغیث کی حیثیت عالمانہ کی گواہی دینے کے علاوہ الفاظ استغاثہ کی تشریح کی۔ خاص کر لئیم کے معنی کو واضح کرکے بتلایا کہ اس کے معنی ایک اخلاقی کمینہ کے ہیں جو تمام برائیوں کو شامل ہے پھر عربی کا یہ شعر سنایا ؎ ولقد مررت علی اللئیم یسبّنی فمضیت ثمہ قلت لایعنینی نیز مرزا قادیانی کی (اسی کتاب کے ص۵، خزائن ج۱۹ ص۲۲۳) پر دکھایا کہ یہی لفظ انہوں نے خود فرعون کی نسبت لکھا ہے جو مسلمانوں کے علاوہ تمام دنیا میں ذلیل وخوار ہے۔ ان کے بعد مولوی اﷲ دتہ صاحب ساکن سوہل ضلع گورداسپور اور مولوی عبدالسبحان صاحب ساکن مسانیاں ضلع گورداسپور کی شہادت ہوئی۔ اور مرزا کے وکیل کو کہا گیا کہ جرح کرو۔ اس نے جواب دیا کہ