احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
آج کل گورداسپور میں مرزائیوں کے مقدمات بڑے دھڑلے سے چل رہے ہیں۔ ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۳ء کو مرزا قادیانی بحیثیت ملزم اس مقدمہ میں پیش ہوئے جو ان پر اور حکیم فضل دین صاحب پر منجانب مولوی محمد کرم الدین صاحب دائر عدالت ہیں۔ مرزا قادیانی کی طرف سے خواجہ کمال الدین مولوی محمد علی شیخ نور احمد صاحبان وکلاء اور منجانب مولوی صاحب شیخ علی بخش بابو مولا مل صاحبان وکلاء پیروکار تھے۔ مرزا قادیانی کے وکلاء نے ملزمان کی طرف سے ایک تحریری درخواست پیش کی کہ جب تک ہمارے استغاثے فیصلہ نہ ہولیں۔ یہ استغاثہ ملتوی رہے چنانچہ دو روز وکلاء ملزمان نے زوروشور سے بحث کی اور وکلاء مستغیث نے اس کی تردید کی مجسٹریٹ نے اس درخواست کو نامنظور کیا اور شہادت استغاثہ کے لئے ۱۷؍اکتوبر ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی۔ استغاثہ کی طرف سے حسب ذیل اصحاب شہادت کے لئے معرفت عدالت طلب ہوئے۔ شمس العلماء مولوی مفتی محمد عبداﷲ صاحب، شمس العلماء مولوی عبدالحکیم صاحب کلانوری، محمد علی صاحب بی۔ اے منصف بٹالہ۔ ملک تاج الدین صاحب واصل باقی نویس تحصیل جہلم، چودھری عبداﷲ خان صاحب رئیس ضلع جہلم ۲۰؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو مقدمہ حکیم فضل دین صاحب بنام مولوی محمد کرم الدین صاحب زیردفعہ ۴۳؍تعزیرات ہند پیشی ہوا جس میں اصحاب ذیل کی شہادت ویلفیئر میں گزری منشی شمس الدین صاحب شائق مالک شمس الہند پریس لاہور۔ حکیم غلام محی الدین صاحب، پیر منور شاہ صاحب ضلع جہلم، منشی قادر بخش صاحب ایجنٹ شیخ محمد دین صاحب وکیل جہلم اس مقدمہ میں ۵؍اکتوبر کو مرزائیوں نے پھر ایک درخواست زیردفعہ ۵۴؍ضابطہ فوجداری واسطے طلبی پیر مہر علی شاہ سجادہ نشین گولڑہ دی جو عدالت نے نامنظور کی۔ اس مقدمہ میں ۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی۔ اور مقدمہ ۴۱۱؍تعزیرات ہند میں بھی ۲۳؍اکتوبر ۱۹۰۳ء مقرر ہوئی۔ اور بمقدمہ منشی یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم بنام مولوی محمد کرم الدین صاحب زیردفعہ ۵۰۰؍تعزیرات ہند بغرض شہادت استغاثہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۳ء مقرر ہے اور نیز اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مرزا نظام الدین صاحب نے زیردفعہ ۱۰۷؍ضابطہ فوجداری رپورٹ کی جس پر ڈپٹی انسپکٹر تھانہ بٹالہ نے بعد تفتیش رپورٹ کی واقعی احتمال نقض امن ہے۔ اور مرزا ناصر نواب صاحب (خسر مسیح قادیانی) کی نسبت زیادہ احتمال ہے۔ اس پر مجسٹریٹ علاقہ نے نوٹس بنام مرزا ناصر نواب صاحب جاری کیا۔ کہ تم حاضر عدالت ہوکر وجہ بیان کرو کہ کیوں ضمانت نہ لی جائے۔