احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
کی ہے۔ اپنے اپنے نام خاکسار کے پاس بھیج دیں۔ واقع میں یہ رسالہ عجیب طرز کا ہوگا۔ آخر آپ خاندانی پیر جی ہیں نا۔ اگر آپ کو ایسے لٹکے نہ سوجھیں تو کسے سوجھیں مگر معلوم نہیں۔ مرزائی جماعت میں علماء کونسے ہیں۔ ہم کو تو لٹو شاہ اور پٹو شاہ اور چپڑخٹو شاہ اور مدار بخش اور خواج بخش وغیرہ کے سوا کوئی معلوم نہیں ہوا۔ خندقوں کھائیوں کوٹھی کٹھلوں میں مرزائی علماء چھپے ہوں تو ہوں۔ علماء ہوتے تو قادیان میں ہوتے۔ ہاں لے دے کے صرف مولوی حکیم نور الدین صاحب ہیں یہ بے شک عالم ہیں اور یہی قادیان کی کان کے شب چراغ ہیں اور کسی زمانہ میں تو برگزیدہ علماء اہلحدیث سے تھے۔ خیر خدائے تعالیٰ رحم کرے۔ حکیم صاحب کے بعد مولوی محمد احسن صاحب امروہی ہیں۔ یہ بھی کسی زمانے میں بشرح صدر تھے۔ آپ اکثر اوقات مرزا قادیانی کے مخالفوں کی تصانیف کے رد میں کتابیں اور رسالے اور اخباروں میں مضامین بھی دیتے رہتے ہیں۔ یوں کہئے کہ لے پالک نے ان کو اپنا کفارہ بنا رکھا ہے۔ خدائے تعالیٰ ان پر ڈبل رحم کرے۔ علماء کے نام سے باقی صفر۔ ہاں جس طرح ہر ایک وکیل امتحان پاس کرکے عالم بن جاتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک شخص مرزائی ہونے کے بعد مولوی اور عالم بن جاتا ہو تو مضائقہ نہیں۔ شوکت اﷲ نے ہر طرح دیکھ بھال لیا۔ ٹٹول لیا۔ کسوٹی پر کس لیا مگر مرزائیوں میں کوئی کامل عیار نہیں نکلا۔ منطق فلسفہ۔ ہئیت، کلام، معانی وبیان کے مضامین کا ضمیمہ میں دریا بہا دیا مگر کوئی غواص اور پیراک معلوم نہ ہوا۔ علوم وفنون سے کسی کو مس بھی نہیں۔ مرزا قادیانی کو البتہ فارسی اور عربی نظم لکھنے کا سلیقہ ہے مگر سب اصلاح طلب ہے۔ سارا کلام مجدد کی نظر سے گزر جائے تو کندن ہوجائے۔ اور پھر ہندوستان میں کسی کی کیا طاقت ہے کہ مرزا قادیانی کے کلام پر چونچ کھول سکے۔ اس میں بالکل شک نہیں کہ مرزا قادیانی اور ان کے لکھے پڑھے حواری دل میں مجدد کی تجدید پر ایمان لے آئے ہیں۔ مگر ہم کو غصہ صرف اس پر ہے کہ جس طرح سب تصدیق بالقلب کرچکے ہیں۔ اسی طرح اقرار باللسان بھی کریں اور تو اور ایڈورڈ گزٹ کے مرزائی ایڈیٹر کو دیکھئے کہ غریب نہ لکھا نہ پڑھا مگر ہاتھی سے گنے کھانے چلا ہے۔ اس بے چارے کو الفاظ کی سقم وصحت تک کی خبر نہیں مگر اپنے پیر کے خوش کرنے کو اخبار میں اٹکل پچو کچھ نہ کچھ ہانکتا ہی رہتا ہے مجدد کے کلام کا محمل نہیں سمجھ سکتا۔ ایک شعر کا مطلب نہیں بتا سکتا۔ ویسا شعر لکھنا تو کجا۔ اگر اس کے استاد والا ساتذہ بھی گور سے نکل کر آئیں تو مقابلے میں ایک مصرعہ موزوں نہیں کرسکتے۔ لیاقت کی یہ