احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
برتا۔ ہندوستان میں ہمارے شاگرد مختلف مذاہب کے لوگ ہیں۔ شیعہ، سنی، آریا، عیسائی اور خود بعض مرزائی ہمارے شاگرد ہیں۔ ہمارے پاس آتے ہیں ہم سے مستفید ہوتے ہیں۔ خاص فن شاعری اور تجدید کو مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ مگر منشی مختار صاحب کے تمدن اور تہذیب کا باوداآدم سب سے اور خود اپنے مذہبی بھائیوں سے نرالا ہے۔ لہٰذا شکایت کا کوئی محل نہیں خیر۔ کجا بود مرکب کجا تا ختم بحث یہ تھی کہ مذکورہ بالامراسلت میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یکم اگست ۱۹۰۳ء کے ضمیمہ میں جو مضمون بعنوان (مرزائیوں کے مکائد منجانب ابوالسخا محمد رفعت اﷲ صاحب شاہجہان پوری شائع ہوا ہے۔ وہ ان کا بھیجا ہوا اور لکھا ہوا نہیں اور اس مراسلت میں ایک خط محمد رفعت اﷲ صاحب کا بھی ہے جو شحنہ ہند میں مضمون مذکور کے بھیجنے کے بالکل منکر ہیں۔ اس مراسلت سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ وہ مضمون رفعت اﷲ خان صاحب کا بھیجا ہوا نہیں اور ہم کو بھی افسوس ہے کہ ان کے نام سے کیوں شائع ہوا مگر مراسلت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اصل واقعہ جو ضمیمہ میں شائع ہوا وہ غلط تھا مثلاً مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کا خط جس کی نقل نہ صرف ضمیمہ میں بلکہ الحکم میں بھی بذیل مراسلت مذکور شائع ہوئی ہے اس کی تکذیب نہیں کی گئی۔ مراسلت کے پیرایہ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ مضمون چند حضرات کی صلاح اور مشورے سے لکھا گیا اور ایک صاحب کی جانب سے شحنۂ ہند میں بھیجا گیا مگر بعد میں بعض خارجی وجوہ سے آپس میں نزاع ہوگیا۔ خیر ہم کو اس سے مطلب نہیں۔ جب محمد رفعت اﷲ صاحب انکارکرتے ہیں کہ وہ مضمون میرا بھیجا ہوا نہیں تو کوئی ان کو مجبور نہیں کرسکتا کہ تم خواہ مخواہ مضمون کے بھیجنے کا اقرار کرو۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ فی الحقیقت وہ مضمون انہوں نے نہیں بھیجا۔ لیکن اصل مضمون کی تکذیب توجب ہوتی کہ تمام واقعات مندرجہ شحنہ ہند کی مدلل اور معقول تردید کی جاتی۔ ناظرین کی نظر تو واقعات پر ہوتی ہے۔ خواہ ان کا بھیجنے والا کوئی ہو۔ محمد رفعت اﷲ خان صاحب نے جہاں مضمون کے بھیجنے سے انکارکیا ہے اگر واقعات کا بھی انکار کردیں تو ہم بھی انکار اور تردید پر آمادہ ہیں۔ بے شک شحنہ ہند میں بیسیوں مضامین جو جادہ تہذیب سے گرے ہوئے ہوتے ہیں۔ مرزا قادیانی کے خلاف آتے ہیں مگر ہم ان کو شائع نہیں کرتے۔ ہمارا اور مرزا قادیانی کا معاملہ تو ہے اور خیر نال عبا اور قباء سے دھوتی کا تال میل۔ ہم مجدد السنہ مشرقیہ اور مرزا قادیانی موعود۔ ہم ان کو چاہیں لکھیں مگر اور ان کی کیا مجال ہے کہ مرزا