احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہے۔ اس صورت میں دو لاکھ کی مزعومہ تعداد کو دیمک کی طرح چاٹ جانا ضروری ہے اور اگر یہ کوئی پرانا خواب ہے جیسا کہ ایک صاحب جو مرزاکے کوٹھی کھٹلے اور قادیان کے اسرار سے خوب واقف ہیں ان کی زبانی معلوم ہوا کہ بعض خواص مرزائیوں کے تیور چند سال قبل کسی بات پر بگڑ گئے تھے اور انہوں نے مرزائیت کا جبہ قلہ اتارنا اور اسلامی چولا پہننا چاہا تھا اور مرزا قادیانی نے اس پر ان کو مرقومہ ڈانٹ بتائی تھی۔ تو اب اس کا درج کرنا حماقت اور ناعاقبت اندیشی ہی نہیں بلکہ بدشگونی ہے۔ انہی صاحب سے جب ہم نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا واقعہ قادیان میں ہوا ہے تو انہوں نے وہی جواب دیا کہ آتھم کی زندگی کے وقت جبکہ وہ پیشینگوئی کی میعاد کے بعد زندہ رہا اور بعض مرزائی فرنٹ ہوگئے تھے۔ مرزا قادیانی نے اسپیچ دی تھی وہ حال میں چھاپی گئی کیونکہ اب تو الحکم میں خوگرکی بھرتی ہورہی ہے جب کوئی مضمون نہیں ملتا تو مرزا قادیانی کی پرانی ڈھرالی کرم خوردہ دقیانوسی تحریریں شائع کردی جاتی ہیں۔ اور آج کل اور بھی مجبوری ہے کیونکہ غریب ایڈیٹر الحکم مقدمات کی پیروی میں سرگاڑی اور پائوں پھئے بنا پھرتا ہے اور آپ جانئے ہفتہ وار اخبار کا پیٹ پورا کرنا ضروری ہے پس رومیں جو آئے رواہے اور یہ تحریر ضرور بے اطلاع حضرت اقدس شائع ہوئی ہے۔ ورنہ کبھی شائع نہ ہونے دیتے اور ناک کی ضرور خیر مناتے یہ تحریر ایڈیٹر الحکم کی غیبت میں چھپی ہے اور الحکم کے کاپی نویس مکھی پر مکھی چپکانے والے ایک پیر جی ہیں جو بدھو شاہ کے سونٹے اور منارہ کے کلس اور کھڑے الف میں تمیز نہیں کرسکتے۔ ادھر ادھر سے جو کچھ مل گیا دھر گھسیٹا۔ ایڈیٹر۔ خوشآمد درآمد کرکے مرزا قادیانی کے ملفوظات اور حکیم صاحب کی قرابادین سے لسٹم پسٹم کچھ اخذ کرلیا کرتا ہے اور جب وہ قادیان سے غیر حاضر ہوتا ہے تو کاپی نویس ہی کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ تیل با تربوز اگرچہ گندہ مگر ایجادبندہ۔ اور اب تو حکیم صاحب کی بھی چار آنکھیں ہوگئی ہیں کیا معنے کہ ان کو اپنے چہیتے لے پالک کے اخبار البدرہی کی پیوند کاری اور مرمت سے فرصت نہیں ملتی۔ وہ برسات کے دنوں میں پہلے اپنی چھان پر پھوس رکھ لیں تو وہ سروں کا چھپر چھائیں اور یہ ملکہ کسی میں ہے ہی نہیں کہ قلم اٹھایا اور دریا بہا دیا۔ مجدد السنہ مشرقیہ سے بیعت کریں تو کسی قابل ہوجائیں۔ مجدد کا فیض تو عام ہے اس کو کسی سے بخل نہیں۔ اس کے شاگرد تو علاوہ اہل اسلام کے آریا بھی میں سنا تن دھرمی بھی عیسائی بھی ہیں۔ پس فن شاعری اور انشاء پردازی میں اس کومرزائیوں سے کیوں بخل ہونے لگا۔ مرزا