احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
میرٹھ جس کا متولی حضرت حاجی صاحبؒ کا برادر زادہ مسمی حبیب الرحمن مرزائی ہے مسجد کے متعلق سرکار والا کی طرف سے آپ کو ایک سو اسی روپیہ سالانہ کی آمدنی معاف ہے۔ حاجی صاحب کے انتقال کو تیرہ سال ہوگئے۔ مسجد کی آمدنی مرزائی تنور میں پڑتی رہی اور مسجد کا چاہ شکستہ اور سقاوہ مثل غربال یادل عاشق ہے۔ غسل خانہ کی بھی یہی حالت ہے اس کا پانی کنویں میں پڑتا ہے مسجد اور حجروں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ تمام مسجد میں ایک صف ہے۔ نہ شطرنجیوں کا انتظام ہے نہ دیگر سامان ضروری متعلقہ مسجد ہے۔ افسوس ہے کہ جس مسجد کی آمدنی اس قدر ہو۔ اس کی مرمت تک نہ ہو اور ایک سو اسی روپیہ مرزائیوں اور قادیان کے تنور میں پڑے یا پلائو سقنقوری دھن چڑھایا جائے یا متولی مرزائی صاحب ہضم فرمائیں اور گو اس آیت شریف کا ماقبل یتیموں کے حق میں ہے مگر مسجد کا مال بھی اس سے کم نہیں مگر مرزا قادیانی کی طرح اپنے مطلب کے واسطے آیت کی قطع وبرید نہیں۔ ’’انما یاکلون فی بطونہم ناراً وسیصلون سعیرا‘‘ کی مصداق ہوں اس مسجد کے متعلق دو مرزائی تنخواہ دار امام متولی صاحب نے مقررفرما رکھے ہیں۔ حافظ امام الدین مرزائی دو روپے ماہوار۔ مولوی عبدالقادر لدھیانوی مرزائی اڑھائی روپے ماہوار۔ مولوی صاحب اول درجہ کے امام ہیں اور حافظ امام الدین صاحب دوئم درجہ کے سیدھے سادھے مسلمان عوام الناس آج تک ان ہی کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں اور بعض علیحدہ علیحدہ پڑھتے رہے۔ جب مرزا قادیانی اور ان کی مریدوں کی طرف سے زیادہ غلو ہوا تو تمام مسلمانوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھنا چھوڑ دیا۔ پھر تو مرزائیوں نے یہ طعنہ دیا کہ تمہارا توا مام نہیں قریب ایک ماہ سے مادہ فساد پک رہا تھا جس فریق کو موقع ملتا اپنی جماعت اول اول کرلیتا اور نماز مغرب میں لمبی قرأت کی جاتی۔ چنانچہ ۲۴؍مئی۱۹۰۳ء کو مسلمان نماز پڑھ رہے تھے اور جماعت آخری قعدہ میں تھی کہ ۲۰،۲۵ مرزائیوں نے حملہ کیا اور امام کا دوپٹہ اتار لیا اور اس کے کان کھینچے۔ قصہ مختصر مسلمانوں نے نماز صبر سے تمام کی اور پھر اشتعال پاکر مرزائیوں پر پل پڑے۔ پھر تو ایک مرزائی بھی نظر نہ پڑا۔ ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اب مقدمہ بازی ہورہی ہے۔ اعلیٰ حکام تک ناراض ہیں۔ حواریین صلح کے خواستگار ہیں۔ مسلمان کہتے ہیں کہ آمدنی ایک سو اسی روپیہ مسلمان کے سپرد ہو۔ جس کا انتظام مسلمانوں کی معزز اور مؤقر انجمن کرے اور ۱۳؍سال کا گزشتہ حساب دیجئے اور مسجد میں کوئی مرزائی قدم نہ رکھے۔ حضرت ایک سو اسی روپیہ کا سوال کیڑا ہے مسجد کی تو خیریت ہے اور اس کے لئے سجدہ گاہ قادیان کافی ہے۔ (نامہ نگار از کپور تھلہ)