احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
کے اس قول کو دیکھیں جو آپ نے حسان بن ثابتؓ کو فرمایا: ’’اہجہم وروح القدس معک‘‘ اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی کارروائیاں سختی کا محل ہیں یا نہیں۔ اس نے دعویٰ پیغمبری کیا تمام پیغمبروں کی توہین کی۔ خصوصاً عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کوئی فحش کلمہ اٹھا نہیں رکھا۔ علماء ومشائخ صحابہ وائمہ دین۔ الغرض اس کے زبان وقلم سے کوئی فحش وگالی نہیں بچی جو اس نے بزرگان دین کی نسبت استعمال نہ کی ہو۔ منشی الٰہی بخش صاحب کو خودہی تو قسمیں دے کر کتاب ’’عصاء موسیٰ‘‘ لکھوائی۔ اب ان کو مغلظات گالیاں سناتا ہے۔ عبدالعزیز بٹالوی کو بھی گالیوں سے ڈراتا ہے۔ یہ گالیاں اس واسطے دیتا ہے کہ کوئی اس کی تردید گالیوں سے ڈر کر نہ کرے اور یہ شتر بے مہار ہوکر جو چاہے سو کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے جواب میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا جاتا۔ ہر شخص اپنی عزت وآبرو کو اس سے بچاتا ہے۔ پس ایسے مجسم شیطان مدعی نبوت … انبیاء واولیاء کی نسبت بھی کسی قسم کی سختی نہ کی جاوے اور زجرد تو بیخ خلاف تہذیب متصور ہو تو پھر ہم کو بتلایا جاوے کہ سختی کا کون سا محل ہے۔ مرزائی جب کہ کسی مسلمان کو مخاطب کرے گالیاں دے اور وہ حسب آیہ ’’جزاء سیئۃ سیئۃ بمثلہا‘‘ بطور تادیب کچھ ایسے الفاظ لکھے کہ آئندہ شوخی وشرارت مرزائیوں کی جاتی رہے تو اس فتنہ کے انسداد کے شکریہ میں ایسے شخص کی مدح کریں یا الٹا اس پر ناراض ہوکر اپنے کو بناوٹی مہذب ثابت کریں؟ افسوس ہے کہ ہمارے بڑھے ہوئے صوفی اتنی سختی بھی سننا گوارا نہیں کر سکتے۔ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسرے کو پھیر دینے کی تعلیم سے دنیا میں امن نہیں رہ سکتا۔ ہمارے صوفیوں کو ’’خیرالامور اوسطہا‘‘ پر نظر چاہے۔ نہ کہ مداہنت اختیار کرنا اور نہ بدزبان اور بدلگام بننا۔ کون کہتا ہے کہ آپ زبردستی سختی کریں۔ مگر جو جائز طور پر سختی کے ساتھ مرزا سے بدلا لے اس پر کیوں خفا ہوں؟ آپ چاہتے ہیں کہ ضمیمہ شحنۂ ہند کا خوف جو مرزاقادیانی کے دل میں ہر وقت رہتا ہے زائل ہو جاوے اور مرزاقادیانی پھر پہلی سی شوخیاں کرنے لگے۔ آپ الحکم کے طرز کو دیکھ لیں کہ ضمیمہ کی بدولت کس قدر راہ پر آچلا ہے۔ حمیت اسلامی وغیرت ایمانی صحابہؓ میں تھی۔ حضرت عمرؓ جنہوں نے ایک شخص کو صرف رسول اﷲa کے فیصلہ کے بعد حضرتؓ سے فیصلہ چاہا تھا تہ تیغ کر دیا اور خلیفہ اوّل نے ذرہ سی بات پر عروہ بن مسعود ثقفی کو سخت فحش گالی دی۔ ایک ہم ہیں کہ انبیاء، اولیاء، مشائخ، ائمہ دین، صحابہؓ سب کی توہین ومذمت سنتے ہیں۔ مگر بجز مرزاقادیانی، حضور، آپ جناب کے زبان سے نہیں نکال سکتے۔ بلکہ کوئی غیرت اسلامی سے کچھ لکھے تو وہ بھی نہیں سن سکتے۔ ’’ببین تفاوت از رہ کجاست