احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
جب بھی تعجب میں کوئی شہتیر نہیں۔ اب رہے حکیم صاحب! سنا ہے کہ ان کے اور مرزا قادیانی کے مابین کوئی قریبی رشتہ ہے۔ پس یوں تینوں کا ستارہ ملا ہوا ہے اور خوب مل کے بج رہی ہیں۔ شاید کوئی اور بھی ہو جو اہل حدیث سے مسخ ہوکر مرزا قادیانی کا امتی بن گیا ہو۔ امام ابو حنیفہؒ کی تعریف کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مرزا قادیانی کے زعم میں ان کے اجتہادات واستنباطات کا ماخذ زیادہ تر قرآن ہے نہ کہ حدیث۔ پس مرزا قادیانی کو ان کی یہ بات رقابت نبوت کے باعث پسند آئی ہے کہ مرزا کے زعم انہوں نے آنحضرتa کی احادیث کی چنداں پرواہ نہیں کی۔ حالانکہ امام صاحب سے بڑھ کر کوئی متبع سنت نہ تھا۔ انہوں نے صاف فرما دیا کہ’’اترکوا قولی بخبر الرسول‘‘ یعنی جب رسول اﷲa کی حدیث مل جائے تو میرا قول چھوڑ دو۔ انہوں نے یہ بھی فرما دیا کہ ’’اذا صح الحدیث فہو مذہبی‘‘ یعنی جب صحیح حدیث مل جائے تو یہی میرا مذہب ہے۔ پس حدیث رسول اﷲ کی عظمت کرنے والا امام صاحب سے بڑھ کر کون ہوگا؟ بعض معاند مخالفین نے لکھا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کو ۱۹حدیثوں سے زیادہ نہیں ملیں۔ اگر ایسا ہو بھی تو یہ بات ایک مسلم مجتہد کی شان میں دھبا نہیں لگا سکتی کیونکہ شخص واحد کو آنحضرتa کی تمام حدیثوں کا ملنا محال ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مختلف ائمہ محدثین جداجدا کتابیں مرتب نہ کرتے یعنی صحاح ستہ کا وجود ہی نہ ہوتا ایک مجموعہ کافی تھا لیکن مرزا قادیانی اس کے یہ معنے لگا جاتے ہیں کہ امام صاحب کو احادیث کی پرواہ ہی نہ تھی بلکہ ان سے بغض رکھتے تھے۔ ذالک بہتان عظیم! کیسے کیسے حفاظ الحدیث ائمہ گزرے ہیں خصوصاً امام الدنیا فی الحدیث حضرت امام بخاریؒ لیکن مرزا قادیانی کے نزدیک حافظ الحدیث ہونا عیب میں داخل ہے۔ گویا ائمۃ الحدیث قرآن سے سروکار ہی نہ رکھتے تھے اور صرف حدیث کو مانتے تھے۔ علیٰ ہذا حضرت امام شافعیؒ ، امام مالک، امام احمد حنبل رضوان اﷲ علیہم اجمعین مرزا قادیانی کے نزدیک قابل ملامت تھے۔ گویا حافظ الحدیث ہونا بڑا بھاری عیب ہے۔ چہ خوش یہ بروزی اور ظلّی محمد ہیں جن کو محمد رسول اﷲa کی حدیث سے اس قدر نفرت ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ آئمۃ الحدیث آپ کی نظروں میں کھٹک رہے ہیں اگر وہ امام تھے بھی تو مرگل گئے۔ مرزا قادیانی زندہ امام الزمان ہیں۔ اب تو انہیں پر ایمان لانے کا زمانہ ہے۔ ہمیں رہ رہ کر یہی خیال آتا ہے کہ مرزا قادیانی کے چیلے ابھی تک پکے مرزائی نہیں بنے