احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
پھر آپ دفع دخل کرتے ہیں کہ پھیلے گا بھی تو افراط تفریط نہ ہوگی۔ مرزاقادیانی کو دوٹپی ہانکنا بہت سے تجربوں یعنی بہت سی پیشین گوئیوں کے جھوٹا ہونے کے بعد سوجھا ہے۔ اب تو ہر ایک پیشین گوئی تذبذب کا رنگ لئے ہوتی ہے۔ تاکہ موقع ملے تو تاویل بنی بنائی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ خود مرزاقادیانی کے نزدیک طاعون کا ٹیکا ساری خدائی کے لئے مفید اور سب کو اس کی ضرورت مگر مرزائیوں کے لئے مضر اور غیرضروری۔ اس کی وجہ ہم سے سنئے۔ مرزاقادیانی نے منجملہ دیگر علامات کے اپنے خروج کی ایک علامت طاعون بھی قرار دی ہے اور جس طرح مہدی موعود کا خروج مسعود ہے اسی طرح اس کی علامت بھی مسعود ہے تو سب سے پہلے اس کی سعادت مرزائیوں کا حصہ ہے اور بدبخت ٹیکا اس علامت باسعادت کا دور کرنے والا ہے۔ لہٰذا مرزائیوں کے حق میں مضر اور دنیا کے حق میں مفید ہوا۔ گویا آسمانی باپ کی عین مرضی ہوئی کہ طاعون اس کے پوتوں کو ڈھونڈھ کر لقمہ کرتا رہے۔ اب مرزاقادیانی آسمانی باپ کے خلاف یہ کیوں کہتے ہیں کہ طاعون میرے چیلوں کے پاس بھی نہ بھٹکے گا۔ یہ تو گویا اپنی علامت باسعادت کو خود ہی دھکے دے کر قادیان سے نکالنا ہے۔ طاعون تو آسمانی باپ کا پیدا کیا ہوا ہے اور ٹیکا برٹش گورنمنٹ کی ایجاد ہے۔ پس یہ برا اور طاعون اچھا۔ مرزاقادیانی شریک کا کھڑاک نہیں پالتے۔ انہیں تو طاعون ہی عزیز ہوگا نہ کہ اس کا ٹیکا۔ مگر ہم حیران ہیں کہ اس میں گورنمنٹ کی کیوں تعریف کی جاتی ہے کہ اس نے ٹیکا جاری کر کے طاعون کی دم میں نمدا کر دیا۔ وائے سادہ لوح اور وائے بدبختی کی جب طاعون کی دم نمدا ہو گیا جو مسیح موعود کا بڑا نشان ہے تو مسیحیت ومہدویت کی دم میں بدرجہ اولیٰ بانس ہوجائے گا اور جب کہ ۲۰سال قبل مرزاقادیانی کو آسمانی باپ نے طاعون کے آنے کا آرڈر سنادیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ دجال کے مقدم کی علامت خردجال ہوگا تو تیرے خروج کی علامت طاعون ملعون، پھر ان طاعون سے ناک بھون چڑھانا۔ اس کے دفعیہ کو تریاق بنانا اور الحکم میں اس کا علاج بتانا۔ آسمانی باپ کی نافرمانی کرنا اور ناخلف ہونے کا ثبوت دینا ہے۔ مرزائیوں کے لئے طاعون رحمت ہے اور ساری خدائی کے لے زحمت۔ کیونکہ موعود نے دنیا میں دورنگی کافوٹو بن کر خروج کیا ہے اور پھر مرزائیوں کے لئے بھی کبھی رحمت ہے اور کبھی زحمت۔ رحمت تو اس لئے ہے کہ موعود کا تمغہ ہے اور زحمت اس لئے ہے کہ یہ کمبخت جب الجوع الجوع پکارتا ہوا جھپٹتا ہے تو نہ لے پالک کی سنتا ہے نہ آسمانی باپ کی۔ ایڈیٹر!