احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ہے۔ کیونکہ مرزا اور مرزائیوں کے سوا کوئی مؤمن ہی نہیں جس کی دعا میں اثر ہو اور کلام مجید کی آیت ’’فادعونی استجب لکم‘‘ مرزاقادیانی اور مرزائیوں ہی کی شان میں اتری ہے۔ اگر مرزاقادیانی استجابت دعا کا انکار کریں تو رقمیں کیونکر اینٹھیں اور کھٹاکھٹ بچے جنوانے کا وعدہ کیونکر کریں۔ دعا کی مخالفت میں تو نیچریت آگھسی۔ مگر معجزات انبیاء کا انکار نیچر کے موافق ہے۔ میٹھا ہڑپ اورکڑوا تھو تھو۔ عیسیٰ مسیح کو تو مرزاقادیانی اس لئے مارتے ہیں کہ خود مسیح موعود بنے ہیں۔ یعنی جب خود زندہ مسیح دوبارہ آئے گا تو مرزاقادیانی کس کھیت کی دساور رہیں گے اور معجزات سے اس لئے انکار ہے کہ خود بدولت مداری یا بھورے جنگل کے جھمورے کے بھی پورے تماشے دکھانے میں ادھورے بلکہ لنڈورے ہیں۔ جب آپ نبی اور رسول ہیں توکیا وجہ ہے کہ خرق عادت کا کوئی کرشمہ نہ دکھائیں۔ اس لئے معجزات خلاف نیچر ہیں۔ عصمت بی بی از بیچاوری۔ جب معجزات کا انکار ہے جو نیچر کے خلاف ہیں تو دعا کی قبولیت پہلے خرق عادت ہے۔ کیونکہ تمام معجزات انبیاء کی دعاؤں ہی سے واقع ہوئے ہیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا پر آسمان سے من وسلویٰ کا نزول اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے فرعون کا غرق ہونا اور نوح علیہ السلام کی بددعا سے طوفان کا آنا وغیرہ۔ تمام معجزات کا ظہور دعاؤں ہی سے ہوا ہے۔ پس دعا کی قبولیت پر ایمان اور معجزات کاانکار آدھا تیتر آدھا بٹیر ہے۔ معجزات نیچر کے خلاف ہیں تو دعا بھی جو ایک شے کی اصلی ماہیت کو بدل دیتی ہے اور واقعات کو منقلب کر دیتی ہے۔ ضرور نیچر کے خلاف ہونی چاہئے۔ پھر مرزاقادیانی کی بھی ساری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ وہی قبول ہوتی ہیں جن کا دکھشنا اور دانت گھسائی ملتی ہے اور آسمانی باپ انہیں لوگوں کو اپنے لے پالک کی دعا سے متمتع کرتا ہے جو اس کو زعفرانی حلوا کھلاتے ہیں۔ دنیا کو لوٹنے کو باپ بیٹے خاصے گھٹے ہیں۔ ایک چور دوسرا گٹھ کٹا۔ پس اب دنیا کا اﷲ ہی بیلی ہے۔ پھر تعجب ہے کہ آسمانی باپ اپنے لے پالک کی بددعا قبول نہیں کرتا۔ آتھم کے مرنے کے لئے کتنی ناک رگڑی مگر نہ مرا۔ اپنے رقیب یعنی آسمانی منکوحہ کے خاوندکو کیسا کیسا پانی پی پی کر کوسا۔ مگر اس کی زندگی کے پشمینے کا ایک روان بھی نہ اکھڑا۔ ہاں ایک بددعا قبول ہوگئی۔ وہ کیا، ہندوستان میں طاعون کا آنا اس میں یہ خرابی پڑی کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ یعنی بے رحم آسمانی باپ نے اپنے پوتوں کو بھی طاعون کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یہ بھی وہی بات ہوئی کہ کرے ڈاڑھی والا اور دھرا جائے مونچھوں والا۔ بات یہ ہے کہ لے پالک