احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
ایوان) کے چبوترے پر کرسی بچھائے بیٹھا ہے اور اپنے لمبے لمبے ہاتھوں سے ساری دنیا کا انتظام کر رہا ہے اور محمد صاحب (a) افلاک کو چیر پھاڑ کر یا پدموں اور سنکھوں میلوں کے خلاء بسیط کو طے کر کے کیونکر طرفۃ العین میں شب معراج آئے اور گئے۔ علیٰ ہذا کیونکر ممکن ہے کہ عیسیٰ مسیح کی اتنی عمر ہو اور وہ بغیر کھائے پئے فلک چہارم پر دندنا رہا ہو۔ یہ ایسے ملحدانہ اعتراضات ہیں کہ ایک مسلمان جوکتاب وسنت کے اتباع کا مدعی ہو ان کو منکر اس کا خون جوش میں آئے گا نہ یہ کہ وہ خود اسلام پر ایسے اعتراض کرے گا۔ ہم کو حیرت ہے کہ جب مرزاقادیانی کے ایسے عقائد میں اور وہ کتاب وسنت کے نصوص قطعیہ کے ایسے منکر ہیں اور جدید رفارمر بنے ہیں تو اپنے کومسلمان کیوں کہتے ہیں۔ تمام اسلامی علماء اور مشائخ مرزاقادیانی کو دائرہ اسلام سے خارج کر چکے۔ الحاد وتکفیر کے فتوے لگا چکے۔ مگر مرزاقادیانی اور تمام مرزائی بدستور یہی کہے جاتے ہیں کہ ہم اچھے خاصے ترشے ترشنائے مسلمان ہیں۔ بلکہ ہم ہی مسلمان ہیں اور ہمارے سوا دنیا میں کوئی مسلمان نہیں۔ مرزاقادیانی نے اپنی بروزی اور ظلی رسالت کا دارومدار بالکل مسیح علیہ السلام کی موت پر رکھ چھوڑا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی بادشاہ مر جائے اور ایک گداگر یہ ہانک لگائے کہ میں اس کا جانشین ہوں۔ ایسے شخص کو لوگ مخبوط الحواس اور مجنون نہ سمجھیں گے تو کیا سمجھیں گے۔ مرزاقادیانی کے خلیفہ کہتے ہیں کہ تمام علماء میرے سامنے آئیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ بجز ممات مسیح کے دوسرے مسئلہ پر بحث نہ ہوگی۔ حالانکہ جب مرزاقادیانی مدعی نبوت ہیں تو سب سے پہلے ان کو اپنی نبوت اور موعودیت کا ثابت کرنا ضروری ہے۔ ان کے پاس تو بس یہی دلیل ہے کہ مسیح علیہ السلام برے تھے۔ ان میں فلاں فلاں عیوب تھے۔ وہ جھوٹے اور مکار تھے۔ میں ان سے بدرجہ اچھا ہوں۔ کتاب وسنت میں تو عیسیٰ مسیح کے معصوم اور نبی برحق ہونے کی تعریف ہو اور مرزاقادیانی باوصف دعویٰ مسلمانی ان کو فاسق وفاجر عوام سے بھی بدتر سمجھیں۔ کیاکوئی مسلمان اس کو یقین کر سکتا ہے اور مسیح علیہ السلام پر ایسے فحش گو اورطوفان باندھنے والے کو ترجیح دے سکتا ہے۔ افسوس ہے کہ مرزاقادیانی تو اپنے چچا کے بیٹوں (۲۳ مہدیان کذاب) کی سنت پر بھی نہ چلے۔ یعنی کسی جھوٹے مہدی نے انبیاء کو گالیاں نہیں دیں نہ ان کے مقابلے میں اپنے کو ظلی اور بروزی رسول اورنبی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وحشیوں اور جاہلوں میں تھوڑی دیر ان کی شعلہ کی سی جھلک یا بجلی کی سی چمک قائم رہی۔ کیونکہ وہ ناحق پر تھے اور بالآخر خود ہی بجھ گئی۔ ورنہ سوڈان اور افریقہ کے وحوش ان کو چند روز کے لئے بھی مہدی تسلیم نہ کرتے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ میرٹھ