احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
مرزاقادیانی کو مہدی آخرالزمان، مسیح موعود، مثیل مسیح، بروزی محمد وغیرہ اعتقاداً مانتے ہیں اور منکر ان عقیدۂ مذکور کو بے دھڑک بلاخوف خدا ورسول کافر کہتے ہیں تو یہ ان کاخیال غلط ہے۔ میں مرزاقادیانی کے منکروں کو ہرگز کافر نہیں کہتا۔ صرف خدا اور رسول (محمدa) کا منکر کافر ہے۔ اس پر قرآن اور حدیث گواہ ہیں۔ مرزاقادیانی کے قول اور فعل میں بہت اختلاف ہے جو ایک بزرگ کے خواص سے بعید ہے۔ یعنی برگزیدگان خدا جو بات کرتے ہیں وہ خالصاً لوجہ اﷲ ہوتی ہے۔ اس میں کسی خواہش نفسانی کو دخل نہیں ہوتا اور اس کا فعل کبھی اس کے قول کے مخالف نہیں ہوتا اور اس کا قول تب اوروں کے دل پر اثر کرتا ہے جب وہ خود پہلے اس پر عمل کر کے ثابت کر دے۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے نفس کی تعریف میں بہت سے اوراق پریشان کو جمع کیا ہے اور وہ اوراق قابل قدر ہیں بھی۔ کیونکہ مرزاقادیانی کی تصنیف توہیں نہیں بلکہ قدیمی کتب سے تالیف واقتباس کیا ہے۔ مگر ناظرین پر کھل جائے گا کہ کہاں تک مرزاقادیانی یا ان کی جماعت اس پر عامل ہے۔ تعریف نفس… نفس انسان ایک ایسی پوشیدہ چیز ہے جس میں بہت سی باطنی استعدادات اور قویٰ موجود ہیں۔ اس کی تربیت اور نشونما میں انسان اعلیٰ مدارج حاصل کر سکتا ہے جس کے تین درجے ہیں۔ امّارہ، لوّامہ اور مطمئنہ۔ امّارہ… نفس امارہ اس باطنی استعداد کا نام ہے جو انسان کو بدی کی طرف جھکاتا ہے اور برے راستوں پر اس کو چلاتا ہے۔ کیونکہ برائی کی طرف جانا انسان کی ایک حالت ہے جو اخلاقی حالت سے پہلے اس پر طبعاً غالب ہوتی ہے اور یہ حالت اس وقت تک طبعی کہلاتی ہے جب تک انسان عقل ومعرفت کے زیرسایہ نہیں چلتا اور بہایم کی طرح۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے، غصہ اور جوش دینے والے امور میں طبعی جذبات کا پیرو رہتا ہے اور بات بات میں اس کو غصہ آتا ہے۔ تحمل، صبر، حوصلہ اس سے دور بھاگتے ہیں۔ مغلوب الغضبی، انتقام کشی، گندہ دہنی کا والہ وشیدا بن جاتا ہے۔ لوّامہ… نفس لوّامہ سے اخلاقی حالتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس مقام پر انسان دوسرے حیوانی مشابہت سے نجات پاتا ہے اور امارہ سے لوامہ کے درجہ پر ترقی پاکر انسان کو برائی پر ملامت کرتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتا کہ انسان شتر بے مہار کی طرح خواہشات نفسانی کی پیروی میں جدھر منہ اٹھاوے چلا جائے۔ بلکہ اس کا اقتضاء یہ ہی ہوتا ہے کہ انسان سے اچھے عادات اور اچھے اخلاق صادر ہوں اور انسانی زندگی میں کوئی بے اعتدالی سرزد نہ ہو اور اپنی طبعی خواہشوں کے مقابلہ