احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
برٹش سلطنت آزاد ہے۔ مذاہب سے اس کو کچھ تعلق نہیں۔ پس یہ اسی کی آزادی کے انڈوں بچوں کی جھول ہے جو جھوٹے رفارمروں اور رسولوں اور مہدیوں کی جون میں آکر ککڑوںکوں کی بانگ دے رہے ہیں۔ ورنہ کوئی دوسری ایشیائی شخصی سلطنت ہوتی تو بوئے بھی نہ جمتے اور جمتے بھی تو فی الفور اکھڑوا کر پھکوادئیے جاتے۔ ذرا افغانستان، ایران، عرب میں تو اپنا مشن بھیجیں تاکہ پھولی پھولی ماما پختیاں کھانے کی حقیقت معلوم ہو اور چھٹی کے دودھ تک کا گھٹنوں گھٹنوں مزہ آجائے۔ یہ ایک کھلی بات ہے کہ جو بوالہواس دنیا پرست مکار کھلے بندوں دعوے کرتا ہے کہ میں نبی ہوں، رسول ہوں۔مجھ پر ایمان لاؤ۔ وہ علیٰ الاعلان تمام انبیاء علی نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کا انکار کرتا ہے اور ان کی جانب سے مخلوق خدا کو پھیر کر اپنی جانب رغبت دلاتا ہے۔ یہ تمام سوسائیٹیوں کا عموماً اور اسلامی سوسائٹی کا خصوصاً برہمزن ہے اور سوسائٹی بھی وہ جو شرقاً غرباً پھیلی ہوئی ہے۔ یہ مسلمانوں کو حرمین شریفین سے نفرت اور قادیان اور اس کے منارے کی زیارت کی رغبت دلاتا ہے۔ لیکن کیا ایسے ملمع کاروں سے اسلام کو کچھ ضرر پہنچ سکتا ہے یا کبھی پہلے پہنچا ہے توبہ توبہ۔ بہت سے مہدیان کذاب گذر چکے ہیں اور جب تک مخبر صادق کی پیشین گوئی کے موافق ان کی تعداد ۳۰پوری نہ ہوگی برابر خروج کرتے رہیں گے۔ پس مسلمانو! ’’ان ہذا لہئو البلاء المبین‘‘ مرزاقادیانی ہے جو کچھ میں کہوں وہ کرو۔ کس کا قرآن اور کس کی حدیث اور اپنے احمق چیلے چاپڑوں کے سر پر یہ پوچارا پھیرتا ہے کہ قرآن وحدیث کے معانی سوا میرے آج تک کسی نے سمجھے ہی نہیں اور اصل معنی یہ ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں احمد سے مراد میں ہوں اور آیہ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ سے مراد مسیح علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اٹھایا جانا ہرگز نہیں۔ بلکہ رفعت ورجعت مراد ہے۔ یہ اس لئے کہ جب خود عیسیٰ مسیح دوبارہ دنیا میں آنے والے ہیں تواس مکار مثیل المسیح کو کون پوچھے گا۔ لیکن ان الّو کے پٹھوں کو اتنی بھی عقل نہیں کہ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ مضمون سابق سے اضراب کے لئے وارد ہوا ہے۔ یعنی ’’ماقتلوہ وما صلبوہ‘‘ سے۔ اگر خدائے تعالیٰ کو عیسیٰ مسیح کا زندہ اٹھانا مقصود نہ ہوتا تو ’’ماقتلوہ وما صلبوہ‘‘ کے فرمانے کی مطلق ضرورت نہ ہوتی۔ رفعت درجت یا خدا کی طرف جانے کا مرتبہ تو انبیاء کو پہلے ہی حاصل ہے۔ ہر نبی موت وحیات دونوں میں رفیع الدرجات ہے۔ اس صورت میں ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ بالکل لغو اور حشو ٹھہرتا ہے۔ نعوذ باﷲ! مرزاقادیانی کی غزل کا مقطع یہ ہے کہ میں نے اسلامی شریعت کو منسوخ کر دیا ہے اور اے میرے چیلو میں خداوند آزادی بخش آزادی پسند ہوں۔ دوزخ اور بہشت کے وجود کا لاکھوں سال