احتساب قادیانیت جلد نمبر 57 |
|
تھا، نہ مجتہد، بلکہ حنبلی مقلد تھا۔ پس اس کی جانب نہ کوئی مسلمان آج تک منسوب ہوا نہ منسوب ہونے کو پسند کرے گا۔ ورنہ اگر وہ امام ومجتہد ہوتا تو خانۂ کعبہ میں ایک پانچواں مصلیٰ اس کے نام کا بھی ضرور قائم کیا جاتا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ لفظ ویسا ہی موہن اور دلشکن ہے جیسا شیعہ کے لئے رافضی اور سنیوں کے لئے خارجی۔ صرف اتنا فرق ہے کہ گورنمنٹ ہند نے مذکورہ بالا القاب سے ملقب کرنے کی ممانعت نہیں فرمائی اور لفظ وہابی کے استعمال کی ازروئے سرکلر ممانعت کر دی ہے۔ کیونکہ مخالفوں کی مراد لفظ وہابی سے باغی وبدخواہ سرکار ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں نہ صرف مسلمانوں کا بلکہ دیگر اقوام کا کوئی گروہ بھی برٹش گورنمنٹ کا باغی اور بدخواہ نہیں۔ سب کے سب اس کے سایۂ عاطفت میں آزادی اور امن سے بسر کرنے کے باعث آزاد اور عادل گورنمنٹ کے ممنون ہیں۔ چونکہ ایسے لفظ کا زبان پر لانا بھی قرین مصلحت نہیں۔ لہٰذا گورنمنٹ نے اس کی نسبت مندرجہ ذیل کارروائی فرمائی ہے۔ نمبر۳۷۶ … آف۱۸۸۸ء… پولٹیکل ڈیپارٹمنٹ ممالک مغربی شمالی واودھ۔ مورخہ۲۰؍جولائی ۱۸۸۸ء، مقام نینی تال آفس میمورینڈم عرضی مرسلہ مولوی ابو سعید محمد حسین لاہوری، مورخہ ۲۶؍مئی گزشتہ پیش ہوئی۔ مشعر اس کے کہ استعمال لفظ وہابی کا ان ممالک میں کاغذات سرکاری میں ممنوع فرمادیا جائے۔ حکم سائل کو اطلاع دی جائے کہ حضور نواب لیفٹیننٹ گورنر وچیف کمشنر نے ہدایتیں نافذ فرمادی ہیں کہ کاغذات سرکاری میں لفظ وہابی کا استعمال ترک کر دیا جائے۔ دستخط: انڈر سیکرٹری گورنمنٹ، مغربی شمالی واودھ اب ہم مرزائی پنچ سے پوچھتے ہیں کہ اگر راولپنڈی کے علماء اس لائبل کی چارہ جوئی عدالت سے کریں تو کتنے گھروں میں کیا ہو۔ پس جو لوگ بے تحاشا مسلمانوں کو وہابی کہہ دیا کرتے ہیں ان کو متنبہ ہونا اور ایسے دلشکن لفظ کے استعمال سے بچنا چاہئے۔ ملک متوسط اور بنگال میں لفظ وہابی کا استعمال کرنے والوں کو سزائیں مل چکی ہیں۔ عادل گورنمنٹ دوسرے موہن القاب کا چنداں خیال نہیں کرتی۔ مگر لفظ وہابی جس کے استعمال کا اثر گورنمنٹ تک پہنچتا ہے اس کا ضرور خیال کرے گی۔ ایڈیٹر!